1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’خوبصورت چیز، بمبئی کے ڈانس بارز کی خفیہ دُنیا‘‘

24 نومبر 2010

بھارتی ٹی وی کی ایک رپورٹ جس میں ممبئی کے ڈانس بارز پر عائد پابندی کا متنازعہ موضوع اٹھایا گیا تھا، صحافی سونیا فالیرو کو ممبئی میں قائم ڈانس بارز کے وسیع نیٹ ورک اور وہاں کام کرنے والی خواتین کی طرف متوجہ کرگئی۔

https://p.dw.com/p/QH7K
تصویر: AP

تاہم وہ ممبئی کی پیچیدہ دنیا کے بارے میں جتنا جانتی گئیں، مزید جاننے کے لئے ان کے تجسس میں اضافہ ہوتا گیا۔یہ ڈانس بارز،جہاں خوش لباس خواتین بھارتی فلمی یا پاپ گانوں کی دھنوں پر رقص کیا کرتی تھیں، 2005ء سے پابندی کا شکار ہیں۔ پابندی کے بعد یہ موضوع زور پکڑ گیا کہ آیا یہ ڈانس بارز خواتین کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے تھے یا پھر خواتین کو غربت سے نکالنے کا ایک باعزت ذریعہ تھے۔

Iran Forbidden Party 2008, Freies Bildformat
بھارت میں گزشتہ پانچ سال سے ڈانس بارز پر پابندی عائد ہے

خاتون صحافی سونیا فالیرو نے اسی موضوع پر ’’خوبصورت چیز، بمبئی کی ڈانس بارز کی خفیہ دُنیا‘‘ کے عنوان سےایک کتاب تحریر کی ہے، جو رواں ماہ کے اوائل میں منظر عام پر آ چکی ہے۔ اس کتاب میں 19 برس کی لیلا نامی ایک ڈانسر کی زندگی کا احاطہ کیا گیا ہے، جس کی مدد سے مصنفہ پر ڈانس بارز کی پوشیدہ دنیا سے پردہ اٹھتا ہے۔

اس عنوان پر لکھنے کا خیال کس طرح آیا، اس حوالے سے فالیرو اپنے ایک انٹرویو میں کہتی ہیں کہ انہیں بمبئی کے ڈانس بارز کی تہ دار اور پیچیدہ ذیلی ثقافت نے اس تجسس میں گرفتار کیا کہ وہ مزید اس بارے میں کھوج لگائیں کیونکہ بمبئی کے ڈانس بارز کی ہزار رنگ دنیا صرف ڈانسرز اور بارز مالکان کےگرد ہی نہیں گھومتی بلکہ اس میں پولیس، جرائم پیشہ افراد اور سیاست دان بھی شامل ہیں۔

Indische Tänzerin auf der Internationalen Tourismusbörse in Berlin
75000سے زائد خواتین ڈانس بارز پر عائد پابندی سے متاثر ہویئںتصویر: AP

فالیرو کے مطابق ان کی کتاب کا نام ’خوبصورت چیز‘ دراصل اس پیشے کی خوبصورتی اور اس سے منسلک کام کرنے والی خواتین کے حُسن کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی کہانی کا مرکزی کردار یعنی لیلا خوبصورت تو تھی لیکن اس کا حُسن ایک ایسی جنس برائے فروخت اور ایک ایسا سکہ ہے، جس کے ذریعے وہ اپنی بقا کو یقینی بناتی ہے۔

فالیرو نے اپنے اس انٹرویو میں ڈانس بارز پر عائد متنازعہ پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے پابندی عائد کرنےکے عمل کوایک سیاسی فعل قرار دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس فیصلے نے اخلاقیات اور نوجوانوں کی حفاظت کا صرف لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ در اصل یہ ایک ایسا فعل تھا، جس نے اس پیشے سے منسلک 75000 خواتین کو محرومیوں اور رسوائی کی طرف دھکیل دیا۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ

ادارت: امجد علی