1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خود ساختہ جہادی اسلام کو بدنام کر رہے ہیں

عدنان اسحاق1 جون 2016

کیا اسلام میں تشدد ایک مسئلہ ہے؟ خود ساختہ جہادیوں نے ایک عالمی مذہب کو بدنامی سے دوچار کر دیا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے قرآنی تعلیمات کا بغور اور پس منظر کے ساتھ تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کلاؤڈیا مینڈے کی رپورٹ۔

https://p.dw.com/p/1IyQS
تصویر: Colourbox/krbfss

فرانسیسی دارالحکومت پیرس اور بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں دہشت گردوں نے اسلام کے نام پر بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ ان کے اس وحشیانہ عمل کی بدولت ایک عالمی مذہب بدنام ہوا۔ یہ جنگجو خود کو اسلام کے ماننے والے کہتے ہیں اور اپنی شدت پسندانہ کارروائیوں کو ’قرآن و سنت کی تعلیمات کے عین مطابق‘ قرار دیتے ہیں۔ تاہم مسلمانوں کی اکثریت پر امن اسلام پر یقین رکھتی ہے اور ایک ارب مسلمانوں میں سے 98 فیصد کے لیے ڈیڑھ فیصد کے برابر ان دہشت گردوں کی کارروائیاں نا قابل یقین اور تباہ کن ہیں کیونکہ ایسے کسی بھی حملے کے بعد تمام مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگتا ہے۔

اسلام کے ناقدین اور مغربی اقوام کے ایک بڑے حصے کا خیال ہے کہ اسلام میں بنیادی طور پر جنگجو مزاج پایا جاتا ہے۔ اپنے موقف کو صحیح ثابت کرنے کے لیے یہ افراد قرآن کی ان آیات کے حوالے دیتے ہیں، جن میں کافروں یا غیر مسلموں کو مار دینے کا ذکر کیا گیا ہے۔ تاہم یہ سارے معاملات اتنے آسان نہیں ہیں۔ اسلامی امور کے ماہر تھوماس فولک کہتے ہیں، ’’ماہرین مذہبیات کی رائے میں یہ بات غیر متنازعہ ہے کہ اسلام اپنی اساس میں تشدد اور تشدد کو جائز قرار دینے کے حوالے سے جو پیغام دیتا ہے، وہ اس سے زیادہ شدید نہیں ہے، جتنا کہ مسیحیوں کی بائبل میں بھی ملتا ہے۔‘‘

IS Kolonne Fahrzeuge Toyota
تصویر: picture-alliance/AP Photo

جرمنی کی کونراڈ آڈےناؤر فاؤنڈیشن سے منسلک ماہر فولک مزید کہتے ہیں کہ قرآن میں طاقت کے استعمال کو جائز قرار دینے والے جتنے بھی بیانات ہیں، انہیں ان کے سیاق و سباق سے ہٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ وہ اپنے ماحول سے ہٹے ہوئے نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ الہامی کتابوں کے اسی طرح کے حصے یہودیت اور مسیحیت میں بھی ملتے ہیں۔ ’’خدائے واحد کا پرچار کرنے والے تینوں الہامی مذاہب کے صحیفوں میں ایسے حصے موجود ہیں، جو ایک جدید قاری کے ذہن میں شبہات پیدا کرتے ہیں۔‘‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ قرآن بھی اس حوالے سے وضاحت نہیں کر سکتا کہ نوجوان مسلمان ہی، چاہے وہ عراق میں ہوں، شام میں یا پھر برسلز میں، تشدد پر آمادہ کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟ اسلام پسند جنگجو اپنی شدت پسندی کو جائز قرار دینے کے لیے جن قرآنی آیات کے حوالے دیتے ہیں، وہ تو آج سے قریب 14 صدیاں پہلے بھی موجود تھیں اور پیغمبر اسلام کے ’سنت‘ کہلانے والے اعمال یا طریقہ کار میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ جیسی دہشت گرد تنظیمیں آج ہی کے دور میں کیوں قائم ہوئیں؟ ماضی میں کیوں نہیں؟ کونراڈ آڈےناؤر فاؤنڈیشن کے تھوماس فولک کے بقول اس صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی مقدس کتاب میں آیات کی صحیح اور مکمل تفہیم کے لیے انہیں کسی حد تک تنقیدی اور تجزیاتی نظر سے دیکھنا چاہیے تاکہ وہ اسلام کا اصل پیغام سمجھ سکیں۔