1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خوراک کا عالمی بحران

16 اپریل 2008

عالمی بینک نے امیر ملکوں سے کہا ہے کہ وہ خوراک کے عالمی بحران سے نمٹنے کے لیئے پچاس کروڑ ڈالر کی مدد کرے۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو کروڑروں افراد خطِ غربت سے نیچے کی سطح پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/DlOm
جنوبی ایشیاءمیں پیدا شدہ خوراک کے بحران کا ایک منظر، لوگ چاول کی خرید کی منتظر ہیں
جنوبی ایشیاءمیں پیدا شدہ خوراک کے بحران کا ایک منظر، لوگ چاول کی خرید کی منتظر ہیںتصویر: AP

خوراک کے عالمی بحران کے اثرا کئی ملکوں میں ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔جیسے کہ پاکستان میں آٹے اور روٹی کی قیمت میں اضافہ ہو چکا ہے۔اب اگلے ایک دو روز میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے امکانات بیان کیئے جا رہے ہیں اور اس کے بعد اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی غریب عوام کی زدگی اور دوبھر ہو جائے گی ۔

خوراک کی قیمتوں میں اضافے سے بحرانی صورت حال کے ابتدائی اثرات مصر، آئیوری کوسٹ،مو ریطانیہ، ایتھی اوپیا، فلپائن،انڈو نیشیا میں ظاہر ہو چکے ہیں۔دوسری جانب جنوب مشرقی ایشیا کی بڑی اقتصادیات والے ملک بھارت میں بھی اِسی کیفیت میں آہستہ آہستہ شدت پیدا ہو تی جا رہے۔

خوراک کے عالمی بحران کے تناظر میں چین میں افراط زر کی شرح میں اضافے کے باعث صرف ملکی سالانہ ترقی کی رفتار ہی متاثر ہو نہیں ہوئی بلکہ اشیاءخوردونوش کی قیمتوں میں اکیس فی صد اضافہ بیان کیا جا رہا ہے۔چین کی سالانہ شرح رفتار میں بھی خاصی کمی بیان کی گئی ہے۔

اقتصادی ماہرین کے خیال میں اگر عالمی سطح پریہ صورت حال برقرار رہتی ہے تو دنیا کے کئی ترقی پذیر ملکوں میں معاشی عدم استحکام کی کیفیت پیدا ہو نے سے روزمرہ کے استعمال کی اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ اور کھانے پینے کی اشیاءمیں خاصی قلت کے امکانات کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا ۔

عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ کا رجحان مسلسل جاری ہے جو خوراک کے عالمی بحران کو مزید سنگین کردے گا۔یہ اضافہ انسانوں اور ملکوں کی اقتصادیات کے لیئے اجتماعی اور انفرادی سطح پر خطرناک ہے۔سن دو ہزار سات کے وسط سے لیکر اب تک عالمی سطح پر کھانے پینے کی اشیاءمیں پچپن فی صد اضافہ ہو چکا ہے۔

موجودہ غیر معمُولی صورت حال میں عالمی امدادی ایجنسیوں کو مال برداری اورخوراک کی ترسیل میںمشکلات کا بھی سامنا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ خوراک کےموجودہ بحران سے ترقی پذیر ملکوں میں مختلف بیماریاں اپنا گھر بنا کر انسانوں کو موت کے منہ کا تر نوالہ بنانے سے گریز نہیں کریں گی جیسے کہ نائجیریا کے شمالی علاقوں میں مرغیوں میں بردفلُو کے ساتھ اجناس کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے سے عام لوگ پریشان ہیں۔

سٹاک مارکیٹ کے بین الاقوامی ادارےMerrill Lynchنے چین سمیت کئی ملکوں میں خوراک کی قیمتوں میں عدم استحکام کا اشارہ دیا ہے۔کئی ملکوں کی جانب سے مستقبل کی پیش بندیوں کے اشارے سامنے آنے لگے ہیں۔مثلاً دنیا میں سب سے زیادہ چاول پیدا کرنےوالا ملک فلپائن بھی سن دو ہزار دس تک چاول کی فصل میں خود کفالت اور ذخیرہ کرنے پر تین ارب ڈالر خرچ کرے گا۔

یورپی یونین میں بھی افراط زر میں اضافے سے ماہرین اورحکومتیں پیش بندیوں میں مصروف ہو گئی ہیں۔