1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خون عطیہ لینے سے انکار: ریڈکراس کے خلاف مقدمہ

6 جولائی 2010

چین میں ایک ایسے شہری نے بیجنگ میں ریڈ کراس کی ملکی تنظیم کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے جو ہم جنس پرست ہے اور جس کی خون کا عطیہ دینے کی پیشکش کو ریڈ کراس نے رد کر دیا تھا۔

https://p.dw.com/p/OC5I
چین میں اپنے حقوق کے لئے مظاہرہ کرنے والے ہم جنس پرست شہریتصویر: AP

اس مقدمے کو عوامی جمہوریہ چین میں اپنی نوعیت کا اولین مقدمہ قرار دیا جا رہا ہے اور اپنے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی شکایت کرنے والا یہ شہری دراصل ایک ایسا صحافی ہے، جو اپنی شناخت صرف اپنے قلمی نام وانگ ژی ژینگ سے کرواتا ہے۔

بیجنگ میں وزارت صحت کا کہنا ہے کہ صحت عامہ سے متعلقہ ملکی قوانین، جن پر عملدرآمد چین میں خون کی منتقلی کے قومی ادارے کے لئے بھی لازمی ہے، اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ کوئی ایسا شہری اپنے خون کا عطیہ دے جو ہم جنس پرست ہو یا جس کے بیک وقت ایک سے زیادہ افراد کے ساتھ جنسی رابطے ہوں۔

Logo Rotes Kreuz und Roter Halbmond
وانگ کا مطالبہ ہے کہ ریڈ کراس کی تنظیم تمام ہم جنس پرستوں سے معافی مانگے

وانگ ژی ژینگ کے خون کا عطیہ لینے سے انکار کی وجہ بھی یہی تھی۔ لیکن اس پر اس چینی صحافی نے بیجنگ میں ریڈ کراس کی تنظیم کے خلاف یہ کہہ کر مقدمہ دائر کر دیا کہ اس کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔ ژی ژینگ کی اپیل ابھی تک زیر سماعت ہے اور اس بارے میں عدالتی فیصلہ بھی جلد ہی متوقع ہے۔

اس چینی ہم جنس پرست شہری نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ ریڈ کراس کی تنظیم کو تمام ہم جنس پرستوں سے معافی مانگنی چاہئے اور ان کی طرف سے خون کے عطیات کی پیشکشیں بھی قبول کی جانی چاہیئں۔ وانگ کے وکیل کا کہنا ہے: ’’اگر اس مقدمے کا فیصلہ ہمارے حق میں ہو جاتا ہے تو یہ ہم جنس پرست چینی شہریوں کی بہت بڑی جیت ہوگی کیونکہ اپنی نوعیت کے ایسے پہلے عدالتی فیصلے سے چین کے ایسے شہریوں کو ایک طرح سے تحفظ مل جائے گا۔‘‘

چینی معاشرے میں ہم جنس پرست افراد سے متعلق سماجی رویے تعصب سے پاک نہیں ہیں۔ وہاں ایسے شہریوں کو اپنا ایک سماجی میلہ منعقد کرنے کی اولین اجازت گزشتہ برس جولائی میں دی گئی تھی۔ پچھلے سال دسمبر میں جنوب مغربی صوبے یون آن کے شہر ڈالی میں ایک ایسیGay Bar بھی کھل گئی تھی، جس کی حکومت کی طرف سے باقاعدہ حمایت بھی کی گئی تھی۔

Solidarität mit Schwulen und Lesben im Iran CSD Köln 2009
جرمنی میں ایرانی ہم جنس پرستوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے نکالی گئی ایک ریلی کی تصویرتصویر: DW

حکومتی سطح پر اس بالواسطہ جزوی سرپرستی کے باوجود اس سال جنوری میں پولیس نے ملک میں Mr. Gay China نامی ایک مجوزہ نمائش پر پابندی لگا کر اسے ممنوع قرار دے دیا تھا۔ یہ فیصلہ کئی روز تک ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی سرخیوں کا موضوع بنا رہا تھا۔ قبل ازیں گزشتہ برس دسمبر میں چینی حکومت نے تو عوام کو خبردار کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ہم جنس پرست افراد ایڈز کے وائرس کی صحت مند شہریوں میں تیز رفتار منتقلی کا سبب بن سکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق چین میں ہم جنس پرست مردوں اورعورتوں کی تعداد قریب 30 ملین ہے، جو ملک کی مجموعی آبادی کا 2.3 فیصد بنتی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک میں ہم جنس پرست شہریوں کی اصل تعداد ممکنہ طور پر عمومی اندازوں سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ ایسے چینی باشندوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے جو ہیں تو ہم جنس پرست مگر سماجی تعصب کے خوف سے اپنے جنسی رجحانات کا کھل کا اظہار نہیں کرتے۔

چین میں ہم جنس پرستی کو 2001ء تک بالعموم ایک ’دماغی مرض‘ کا نام دیا جاتا تھا اور وہا‍ں ایسے افراد کو آج بھی سماجی اور خاندانی سطح پر شدید دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔ لیکن آج کے چین میں چند برس پہلے کے مقابلے میں جم جنس پرستی کو قبول کرنے کے رجحان میں بتدریج اضافہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔

رپورٹ: سائرہ حسن شیخ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں