1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’داعش کے خاتمے کی منزل قریب تر‘، اشٹائن باخ

Nina Niebergall / امجد علی5 جولائی 2016

عراق اور شام کے زیادہ سے زیادہ علاقے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ہاتھوں سے نکلتے جا رہے ہیں جبکہ دیگر خطّوں میں اس ملیشیا نے اپنے حملے تیز تر کر دیے ہیں۔ جرمن تجزیہ کار اُوڈو اشٹائن باخ کے مطابق اس تنظیم کی حکمت عملی بدل رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1JJGY
Symbolbild Islamischer Staat
تصویر: picture-alliance/AP Photo

اُوڈو اشٹائن باخ تیس برسوں سے زائد عرصے سے ہیمبرگ شہر میں قائم جرمن اوریئنٹ انسٹیٹیوٹ کے سربراہ چلے آ رہے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی نینا نیگرگال کے ساتھ اپنے خصوصی انٹرویو کے آغاز پر اس سوال کے جواب میں کہ کیا استنبول میں کم از کم پنتالیس، ڈھاکا میں بائیس اور بغداد میں تقریباً دو سو افراد کی ہلاکت کا باعث بننے والے دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے پیچھے درحقیقت ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا ہاتھ ہے، اشٹائن باخ نے کہا:’’ان واقعات کے پیچھے نائجیریا میں بوکو حرام سے لے کر مالی اور یمن تک سرگرم وہ مختلف گروپ ہیں، جو ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے وفاداری کا دم بھرتے ہیں۔‘‘

اُنہوں نے کہا کہ مختلف براعظموں میں سرگرم یہ گروپ محض خود کو طاقتور ظاہر کرنے کے لیے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا نام لیتے ہیں، محض یہ تاثر دینے کے لیے کہ وہ مالی، یمن یا افغانستان میں انفرادی حیثیت میں کوئی الگ الگ گروپ نہیں ہیں بلکہ ایک بڑی تنظیم کا حصہ ہیں۔

اشٹائن باخ کے مطابق اب آئی ایس ایک نئی القاعدہ کے طور پر سامنے آ رہی ہے اور محض ایک علاقائی قوت کی بجائے ایک بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے:’’اسلامک اسٹیٹ نے پہلے خلافت قائم کرتے ہوئے اسلامی دنیا کے اندر اپنے سیاسی وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کی اور ’قریبی دشمن‘ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے خود کو حقیقی ریاستوں کے ایک متبادل کے طور پر پیش کیا۔ اب وہ اپنی حکمتِ عملی بدلتے ہوئے ’دُور کے دشمن‘ یعنی یورپیوں اور امریکیوں پر اپنی توجہ مرکوز کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔‘‘

اُنہوں نے کہا کہ ان میں سے کچھ گروپ پہلے اپنے اپنے معاشروں کے ساتھ لڑائی لڑتے ہوئے اسلامی ریاستیں قائم کرنا چاہتے ہیں جبکہ دیگر گروپ پہلے امریکا اور یورپ کے ’کافروں‘ کے خلاف برسرِپیکار ہونے کے خواہاں ہیں، جیسا کہ القاعدہ نے گیارہ ستمبر 2001ء کے حملے کرتے ہوئے کیا تھا۔

Islamforum in Duschanbe Udo Steinbach
مشرقِ وُسطیٰ کے امور کے جرمن ماہر اُوڈو اشٹائن باختصویر: DW

اشٹائن باخ کے مطابق شروع شروع میں القاعدہ اور آئی ایس نے اپنی راہیں الگ الگ کر لی تھیں لیکن جیسے جیسے آئی ایس پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور اُسے اپنی ’خلافت‘ خطرے میں نظر آ رہی ہے، ویسے ویسے دونوں دہشت گرد تنظیمیں پھر سے ایک دوسرے کے قریب آنے لگی ہیں اور دور دراز واقع ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جانے لگا ہے۔ اُنہوں نے اپنے اس انٹرویو میں کہا کہ عراق اور شام میں آئی ایس کے خاتمے کی منزل واضح طور پر قریب نظر آرہی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا سے اسلامی دہشت گردی بھی ختم ہو جائے گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید