1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش کے سپلائی روٹ کو روکنے کی پاکستانی فوج کی کوشش

عابد حسین24 اگست 2016

پاکستانی فوج کے مطابق ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے سپلائی روٹ کو بند کرنے کے ثمرات سامنے آنے لگے ہیں۔ پاکستانی فوجی خیبر ایجنسی کے دشوار گزار پہاڑی علاقے میں اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم بنانے میں مصروف ہے۔

https://p.dw.com/p/1Jp4W
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Arbab

پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے بتایا ہے کہ قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں جاری فوجی آپریشن کے دوران کم از کم چالیس عسکریت پسند ہلاک کر دیے گئے ہیں۔ باجوہ کے مطابق فوجی آپریشن کے دوران بلند پہاڑوں کے مختلف مقامات پر فوج اپنی پوزیشنوں کو مضبوط بنانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔

سکیورٹی اہلکاروں کے مطابق خیبر ایجنسی کی یہ گزرگاہ دشوار دروں اور پیچیدہ راستوں پر مشتمل ہے اور پہاڑیوں میں چھپا ہوا یہ راستہ دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے لیے ایک بہترین سپلائی روپ خیال کیا جاتا رہا ہے۔ انتہا پسند تنظیم کے لیے اِس مددگار راستے کو پاکستانی فوج نے مختلف عسکری کارروائیوں کے بعد تقریباً بند کر دیا ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اِس رکاوٹ سے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو نئے جہادیوں کے علاوہ دوسری اشیائے ضرورت کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔

ایک سینیئر سکیورٹی اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ اِس فوجی آپریشن کا بنیادی مقصد اولین دن سے واضح تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان آزادانہ گشت کرتے عسکریت پسندوں کو کنٹرول کیا جا سکے تا کہ اِس قبائلی علاقے میں امن و سلامتی کی صورت حال بہتر ہو سکے۔

Pakistan Waziristan Armee Infanterie ARCHIV
خیبر ایجنسی میں پاکستانی فوج نے شدت پسندوں کے مشکلات کھڑی کر جدی ہیںتصویر: picture-alliance/AP

خیبر ایجنسی میں جاری فوجی آپریشن کو پاکستانی فوجی کمانڈ کے افغانستان میں انٹرنیشنل فورسرز کے کمانڈروں کی میٹنگ کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔ اِس میٹنگ میں طے کیا گیا تھا کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ پر عسکری دباؤ بڑھانے کے لیے اِس راستے کی ناکہ بندی اشد ضروری ہے۔ سکیورٹی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ خیبر ایجنسی کا روٹ اگر پاکستانی فوج نے پوری طرح اپنے کنٹرول میں کر لیا تو پاکستانی سرحد کے پار افغان علاقے میں داعش کے لیے خاصی مشکلات پیدا ہو سکیں گی۔

جرمن نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی اس سکیورٹی اہلکار نے مزید واضح کیا کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے شدت پسند یقینی طور پر پاکستان اور افغانستان کے لیے خطرے کا باعث بن رہے ہیں اور اِن کی مسلح کارروائیوں کو محدود کرنے کے لیے اِس سپلائی روٹ کو کنٹرول کرنا وقت کی ضرورت بن کر رہ گیا تھا۔

یہ امر اہم ہے کہ حالیہ چند ہفتوں کے دوران انٹرنیشنل فورسز کی مسلح زمینی اور فضائی کارروائیوں میں افغان صوبے ننگر ہار میں متحرک ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے کئی سرکردہ لیڈروں کی ہلاکت ہو چکی ہے۔ ان ہلاک شدگان میں پاکستان اور افغانستان کے لیے اِس عسکری تنظیم کے سربراہ حافظ سعید خان بھی شامل ہے۔

سکیورٹی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سپلائی روپ پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد پاکستانی فوج کو عسکریت پسندوں کے خفیہ حملوں کا سامنا یقینی ہے، اس لیے مزید عسکری اقدامات کی ضرورت ابھی باقی ہے۔ قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے پاکستانی فوج کے سابق بریگیڈیئر محمود شاہ کا بھی خیال ہے کہ بلند پہاڑی چوٹیوں پر فوج کی نفری مستقل بنیادوں پر متعین کر کے اِس سپلائی راستے کی مسلسل نگرانی سے اِس قبائلی پٹی کے لوگوں کو مزید آسانیاں حاصل ہو سکیں گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں