1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داڑھی والے مردوں سے خوفزدہ

2 اگست 2011

تیونس میں انقلاب یاسمین کے بعد وہاں کے اسلام پسندوں کو دوبارہ قدم جمانے کا موقع ملا ہے۔ وہ القاعدہ سے باضابطہ طور پر منسلک نہیں ہونا چاہتے، لیکن اس کے باوجود ان ان کو فکر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/11w3z

تیونس کے حبیب بورقیبہ ایونیو کی ایک دکان پر لمبی سیاہ داڑھیوں والے سفید جبے پہنے ہوئے چند افراد بیٹھے ہوئے ہیں اور سیاست پر زور شور سے بحث جاری ہے۔ کوئی مذہب اور سیاست میں فرق کے بارے میں بحث جاری رکھے ہوئے ہے اور کوئی معاشرے میں پائی جانے والی بدعنوانی پر گفتگو کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے، جس کے بارے میں چند ماہ پہلے تیونس میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ انقلاب سے پہلے سیاسی گفتگو کرنے والے زیادہ تر افراد کو ملکی خفیہ ادراے گرفتار کر لیتے تھے۔

دارالحکومت کے مرکز میں واقع حبیب بورقیبہ ایونیو کا نام تیونس کے پہلے صدر کے نام پر رکھا گیا ہے، جو 1957ء سے 1987ء تک برسر اقتدار رہے تھے۔ بورقیبہ ملک میں سیکولرازم اور جدید تیونس کے حامی تھے۔ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے اسلام پسندوں کو خطرہ محسوس کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہیں مسلسل دبایا گیا۔ انقلاب یاسمین اور بورقیبہ کے جانشین زین العابدین بن علی کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسلام پسند وہاں کی سیاست میں دوبارہ سر گرم نظر آ رہے ہیں۔ لیکن تیونس کے تمام افراد ان کے حامی نہیں ہیں۔

Flanieren in der Avenue Habib Bourguiba
سرین بلحدی اپنے دوستوں کے ساتھتصویر: DW

اسی ایونیو کے ایک ریستوران میں سرین بلحدی اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہیں۔ یہ تمام دوست، جن میں مرد اور خواتین بھی شامل ہیں، بیٹھے سیگریٹ، چائے اور بعض بیئر بھی پی رہے ہیں۔ 27 سالہ سرین کا کہنا ہے کہ اسے اسلام پسندوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔ اس کے مطابق اگر یہ لوگ برسر اقتدار آئے تو یہ ہمیں دوبارہ ماضی میں لے جائیں گے۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں ڈر ہے کہ کالعدم رہنے والی النحضہ اسلامی پارٹی برسر اقتدار آ سکتی ہے۔ النحضہ تنظیم کے بانی راشد الغنوشی ہیں. 70 سالہ غنوشی کو تیونس کے اسلام پسند حلقوں میں انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ مصر کی بین الاقوامی تنظیم اخوان المسلمین سے متاثر ہیں۔ وہ گزشتہ 20 برسوں سے لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے اور انقلاب کے بعد واپس پہنچے ہیں۔

غنوشی کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کا مقصد بن علی اقتدار کی باقیات سے معاشرے کو پاک کرنا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایک آزاد جمہوری ریاست کا قیام عمل میں آئے۔ ان سے نہ تو تیونس کے شہریوں اور نہ ہی مغرب کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ غنوشی کے مطابق ان کا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ القاعدہ صرف اور صرف دہشت گرد تنظیم ہے۔

Chef der Nahda Partei Rachid Al-Ghannoushi
غنوشی کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کا مقصد بن علی اقتدار کی باقیات سے معاشرے کو پاک کرنا ہےتصویر: DW

اسی طرح بنیاد پرست جماعتحزب التحرير کے ترجمان ردا بلِحاج کہتے ہیں کہ پر تشدد کارروائیوں سے فائدے کی بجائے نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نائن الیون حملوں کے پیچھے اچھی نیت کار فرما تھی۔ وہ کہتے ہیں، ’’ ان حملوں کے منفی اثرات مرتب ہوئے، اس کی وجہ مسلمانوں کے پاس میڈیا کی طاقت کا نہ ہونا ہے۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کا مقصد ایک ایسے اسلامی ملک کا قیام ہے، جس میں قرآن اور سنت کی بات کی جائے۔ دوسری جانب اسی ایونیو میں بیٹھی سرین اور اس کے دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی کسی ایسے ملک میں زندگی نہیں گزار سکتے، جہاں بنیاد پرست تنظیموں کی حکمرانی ہو۔

رپورٹ: خالد الکوتیت / امتیاز احمد

ادارت: شہاب احمد صدیقی