1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دمشق کے قریب خونریز فضائی حملے اور اسد کی ’نئی‘ پیشکش

امجد علی31 مارچ 2016

شامی دارالحکومت سے مشرق کی جانب ایک اسکول اور ایک ہسپتال کے قریب کیے گئے فضائی حملوں میں کم از کم 23 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ اسی دوران صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ وہ قبل از وقت صدارتی انتخابات کروانے کے لیے تیار ہیں۔

https://p.dw.com/p/1INXi
Symbolbild - Syrien US Kampfflugzeug
تصویر: Getty Images/M. Bucher

اپوزیشن کے حامی کارکنوں نے بتایا ہے کہ ایک مہینے سے زائد عرصہ پہلے اس جنگ زدہ ملک میں جزوی فائر بندی کے نفاذ کے بعد سے یہ اپنی نوعیت کا خونریز ترین واقعہ ہے، جو دارالحکومت دمشق کے نواح میں غوطہ کے علاقے میں باغیوں کے زیرِ قبضہ ایک گاؤں دير العصافير میں پیش آیا ہے۔

برطانیہ میں قائم تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق اس گاؤں پر نامعلوم جنگی طیاروں کی جانب سے چَودہ فضائی حملے کیے گئے۔ مرنے والوں میں چار بچوں کے ساتھ ساتھ شہری دفاع کا ایک کارکن بھی شامل ہے۔ ابتدائی رپورٹوں میں ہلاکتوں کی تعداد دَس بتائی گئی تھی۔ ابھی بھی ایک مقامی اپوزیشن گروپ کی جانب سے ہلاکتوں کی تعداد سترہ بتائی جا رہی ہے۔

اگرچہ ابھی یہ بات واضح نہیں ہے کہ ان فضائی حملوں کا ذمہ دار کون ہے تاہم جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق شامی صدر بشار الاسد کی مسلح افواج گزشتہ کئی ہفتوں سے اس گاؤں کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ واضح رہے کہ حملے کا نشانہ بننے والا گاؤں بھی اُس جزوی فائر بندی والے علاقے میں آتا ہے، جو امریکا اور روس سمیت عالمی طاقتوں کی ثالثی میں طے پائی تھی۔

علاقے میں موجود اپوزیشن کارکنوں کے مطابق ان فضائی حملوں کے دوران ایک اسکول کے ساتھ ساتھ ایک فیلڈ ہسپتال کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں کے بارے میں تاحال دمشق حکومت کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔

گاؤں دير العصافير کا کنٹرول باغی گروپ جیش الاسلام کے ہاتھ میں ہے، جس نے ان فضائی حملوں کو ایک ’قتلِ عام‘ قرار دیا ہے اور جوابی کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ استنبول میں قائم مرکزی اپوزیشن گروپ سیریئن نیشنل کونسل نے بھی ایک بیان میں اس واقعے کی مذمت کی ہے۔

جمعرات ہی کو سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے یہ بھی بتایا کہ شامی شہر الرقہ میں بدھ کی شب ایک ڈرون حملے میں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا ایک کمانڈر ہلاک ہو گیا۔ بتایا گیا ہے کہ اس جہادی کمانڈر پر یہ حملہ اس وقت کیا گیا، جب وہ حلب صوبے کی جانب سفر کر رہا تھا۔ ابوالہجا نامی یہ کمانڈر تیونس کا شہری تھا اور اس دہشت گرد تنظیم میں اعلیٰ پوزیشن کا حامل تھا۔ بتایا گیا ہے کہ یہ کمانڈر اس حملے سے 24 گھنٹے پہلے ہی عراق سے شام پہنچا تھا۔

Syrien Präsident Baschar al-Assad
شام کے صدر بشار الاسدتصویر: picture-alliance/dpa

دریں اثناء شامی صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ اگر شامی عوام ایسا چاہیں تو وہ قبل از وقت صدارتی انتخابات کروانے کے لیے تیار ہیں۔ دمشق حکومت کی جانب سے عربی زبان میں فراہم کی جانے والی عبارت کے مطابق بشار الاسد نے روس کی سرکاری نیوز ایجنسی آر آئی اے نوووستی کو بتایا کہ اگر عوام قبل از وقت صدارتی انتخابات کے حامی ہیں تو اُنہیں یہ الیکشن کروانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ واضح رہے کہ شامی اپوزیشن مسلسل اُن کے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے۔

شام میں آخری مرتبہ صدارتی انتخابات جون 2014ء میں ہوئے تھے، جب بشار الاسد کو 88.7 فیصد ووٹوں کی حمایت کے ساتھ اگلے سات سال کے لیے صدر منتخب کر لیا گیا تھا۔ اُن کی مدتِ صدارت کہیں 2021ء میں اختتام کو پہنچے گی تاہم عالمی طاقتیں اقوام متحدہ کی ثالثی میں جو امن عمل جاری رکھے ہوئے ہیں، اُس میں اٹھارہ ماہ کے اندر اندر پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کا ذکر کیا گیا ہے۔

پارلیمان کی آئینی مدت چار سال ہوتی ہے۔ آخری پارلیمانی الیکشن مئی 2012ء میں منعقد ہوئے تھے جبکہ اس سال تیرہ اپریل کو ایک بار پھر پارلیمانی انتخابات منعقد ہونا ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید