1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا میانمار کی طرف سے چشم پوشی کر رہی ہے: امرتیا سین

21 اکتوبر 2010

نوبل انعام برائے اقتصادیات حاصل کرنے والے بھارتی ماہر نےکہا ہےکہ میانمار کے سات نومبر کو ہونے والے مجوزہ انتخابات جمہوری نہیں ہوں گے۔ عالمی برادری میانمار کی فوجی حکومت کے کردار کو نظر انداز کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/PjtY
تصویر: picture alliance/dpa

نوبل انعام برائے اقتصادیات حاصل کرنے والے بھارتی ماہر امرتیا سین نےکہا ہےکہ میانمار کے مجوزہ انتخابات کے پُر امن انعقاد کے لئے وسیع ترگلوبل سکیورٹی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہرکیا ہےکہ سات نومبرکو میانمار میں ہونے والے انتخابات ملک میں کی جانے والی جمہوری کوششوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتے ہیں۔

مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے معروف ماہر اقتصادیات، جنہوں نے اپنے بچپن کا کچھ عرصہ میانمار میں بھی گزارا ہے، کا کہنا ہے کہ میانمار کی سیاسی صورتحال اور وہاں آئندہ ماہ ہونے والے مجوزہ الیکشن کے بارے میں عالمی برادری کی توجہ بہت کم نظر آ رہی ہے۔ اُن کے بقول’ دنیا میانمار کی طرف سے چشم پوشی کر رہی ہے‘۔

Myanmar Burma Aung San Suu Kyi
میانمار میں ایک عرصے سے عوام جمہوریت کے لئے جنگ کر رہی ہےتصویر: picture alliance/dpa

میانمارجسے رسمی طور پر برما بھی کہا جاتا ہے، کی فوجی حکومت نے 20 سالوں میں پہلی بار عام انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم سات نومبر کے ان مجوزہ انتخابات کے موقع پر غیر ملکی میڈیا اور مبصرین کے لئے میانمار جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ مزید یہ کہ اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی اب بھی نظر بند ہیں۔

ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر امرتیا سین نےکہا ہے’’ اس وقت عالمی سطح پر مینمار کے مجوزہ انتخابات کی نوعیت کے موضوع کو سب سے زیادہ اہمیت دی جانی چاہئے۔ ان کے بقول اس سے زیادہ ضرورت فی الوقت کسی اور چیز کی نہیں ہے کہ زیادہ سے زیادہ پبلک مباحثوں میں اس الیکشن کے مقاصد اور اس کے انعقاد کے لئے فوجی حکومت کے منصوبوں پر بات چیت کی جائے، جوکہ دھاندلیوں اور بے ضابطگیوں سے بھرپور ہوں گے‘۔

جان ہوپکنس یونیورسٹی میں ایک لیکچر دیتے ہوئے سین نےکہا’ حکومت کے پروپگینڈا کے ذریعے ممکنہ جیت ملک میں کی جانے والی جمہوری کوششیں تباہ کر دے گی‘۔

امرتیا سین نے فوری طور پر اقوام متحدہ کی طرف سے میانمار کی فوج پر لگے مبینہ جرائم کے الزامات کی تحقیق کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہےکہ میانمار کی جنتا حکومت پر انسانیت کے خلاف جرائم، ہزاروں دیہات نیست و نابود کر دینے اور نسلی اقلیتی گروپوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے جیسے الزامات عائد ہیں۔

Erster Jahrestag der Proteste in Birma
میانمار میں حکومت مخالف مظاہروں کے سلسلے کے آغاز کی پہلی سالگرہتصویر: picture-alliance/dpa

امرتیا سین نےکہا ہے کہ ’ ایشیاء کے لیڈروں کو میانمارکی قیادت کے بیانات پر خوشی کا اظہار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس سے ملٹری حکومت کو موقع مل جائے گا، اپنے فاسق مقاصد کے حصول کے لئے تمام تر کوششیں کرنے کا۔ سین نے بھارتی وزیر اعظم کو بھی اس ضمن میں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جنہوں نے گزشتہ جولائی میں میانمار کے لیڈر تھان شوےکا خیر مقدم کیا تھا۔ امرتیا سین نے کہا ہے کہ مہاتما گاندھی کی قوم میانمار میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ پر توگہری تشویش کا اظہار کرتی ہے تاہم یہ اپنی اقدار بُھلاتی جا رہی ہے۔ سین نےکہا ’ میرے جمہوری ملک کے وزیر اعظم، جنہیں دنیا بھر میں نہایت بردبار، وجیہ اور انسان دوست لیڈر مانا جاتا ہے، نے میانمار کے ظالم، جابر اور انسانوں کا خون کرنے والے رہنما کا خیر مقدم کیا۔ اُن کے اس عمل سے میرا دل بُری طرح ٹوٹ گیا ہے‘۔

سین نےکہا ہےکہ اُن کا ملک بھارت اس وقت اتنا طاقت ور ہےکہ وہ بہت سے معاملات پر اثر انداز ہو سکتا ہے تاہم وہ اپنی ان ذمہ داریوں کو نہیں نبھا رہا ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں