1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دوبندوقوں کے بیچ پھنسے لاچار افغان شہری

گوہر نذیر گیلانی18 فروری 2009

ایک طرف افغانستان میں شہری ہلاکتوں میں حیران کُن اضافے کے تعلق سے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ اور دوسری طرف نئے امریکی صدر باراک اوباما کا مزید سترہ ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کا منصوبہ۔ اس جنگ میں آخر جیت کس کی ہورہی ہے؟

https://p.dw.com/p/GwQU
نیٹوکی کانوائے پر ایک خودکش حملے میں زخمی ہونے والے اس افغان بچّے کا علاج ہسپتال میں ہورہا ہےتصویر: AP

طالبان اور اتحادی افواج کے مابین جاری جنگ میں اگر کوئی پریشان حال ہے، مرتا ہے اور دو بندوقوں کے سائے تلے کٹھن حالات میں جی رہا ہے، وہ ہے ایک عام افغان شہری۔

2001ء کے اواخرسے افغانستان میں جاری جنگ کے نتیجے میں اب ہزاروں شہری جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان اور اتحادی افواج کے مابین لڑائی کے نتیجے میں صرف سال دو ہزار آٹھ میں تقریباً 2100 افغان شہری ہلاک ہوئے۔

Afghanistan Taliban
اکیاون ہزار غیر ملکی فوجیوں کی موجودگی کے باوجود افغانستان کے جنوب میں طالبان عسکریت پسند مضبوط پوزیشن میں ہیںتصویر: AP

طالبان تنظیم ملک کے جنوبی حصّے میں پہلے سے اور زیادہ مضبوط ہورہی ہے۔ اس لئے امریکہ اور اس کے اتحادی اپنی بھرپور توجہ افغانستان پر مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔ باراک اوباما نے مزید سترہ ہزار امریکی فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا۔ امریکی صدر نے اعتراف کیا کہ افغانستان میں سلامتی کی صورتحال ابتر ہوگئی ہے اور یہ کہ صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہاں مزید فوجی اہلکار تعینات کئے جائیں۔

US-Präsident Obama
امریکی صدر باراک اوباما افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ پربھرپورتوجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیںتصویر: AP

امریکی رپبلکن سینیٹر جان میکین نے مزید فوجی اہلکار افغانستان بھیجنے کے فیصلے کی ستائش کی تاہم ساتھ ہی خبردار کیا کہ طالبان کے خلاف جنگ جیتنے کے لئے موجودہ حکمت عملی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

چالیس ملکوں پر مشتمل انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس ISAF کے تقریباً اکیاون ہزار فوجی پہلے ہی افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں کا مقابلہ کررہے ہیں۔ امریکہ کا اتحادی ملک جرمنی بھی افغانستان مزید چھو سو فوجی بھیجنے کے منصوبے پر غور کررہا ہے۔ نیٹو کی سربراہی میں پہلے ہی ساڑھے تین ہزار جرمن فوجی افغانستان میں تعینات ہیں۔

ISAF Soldaten der Bundeswehr Afghanistan
افغانستان میں نیٹو کی سربراہی میں ساڑھے تین ہزار جرمن فوجی بھی تعینات ہیںتصویر: AP

افغانستان میں فوجیوں کی تعداد میں اضافے سے وہاں اتحادی افواج کی کل تعداد تقریباً ستر ہزار ہوجائے گی لیکن اس اضافے کے بعد اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ حالات معمول پر آجائیں گے؟

زیادہ فوج کا مطلب ہوگا طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف اور زیادہ حملے اور جواب میں طالبان کی طرف سے اور زیادہ خودکش حملے۔ عین ممکن ہے کہ اس لڑائی کے نتیجے میں مزید افغان شہری نشانہ بن جائیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان عسکریت پسندوں کے خودکش حملوں اور سڑک کے کنارے نصب کئے جانے والے بموں کے نتیجے میں اکثر افغان شہری مارے جاتے ہیں۔ دو ہزار آٹھ کے دوران باغیوں کے ایسے حملوں میں تقریباً بارہ سو افغان شہری ہلاک ہوئے۔ اس رپورٹ کے مطابق اسی عرصے کے دوران اتحادی افواج کے فضائی حملوں میں لگ بھگ ساڑھے آٹھ سو افغان شہری جاں بحق ہوئے۔

AWACS Aufklärungsflugzeug
اقوام متحدہ کے مطابق طالبان کے مبینہ ٹھکانوں پر نیٹو کے فضائی حملوں میں اکثر عام افغان شہری مارے جاتے ہیںتصویر: AP

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کے مطابق امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے عسکریت پسندوں کے مبینہ ٹھکانوں پر کئے جانے والے فضائی حملوں میں اکثر عام افغان شہری نشانہ بنتے ہیں۔

اس وقت افغان عوام میں صدر حامد کرذئی کی مقبولیت میں بھی واضح کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اُن کی حکومت پر بدعنوانی کے سنگین الزامات ہیں۔ افغانستان میں اسی سال صدارتی انتخابات ہورہے ہیں اور شاید اسی وجہ سے صدر حامد کرذئی امریکہ پر زور دے رہے ہیں کہ اسے عسکریت پسندوں پر حملوں کے وقت شہریوں، بالخصوص بچّوں اور خواتین، کی حفاظت کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔

تجزیہ کاروں کی رائے میں افغان صدر کے ایسے بیانات کی ٹائمنگ بڑی اہم ہےکیوں کہ انتخابات سے قبل وہ ضرور اپنے ووٹروں کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر حامد کرذئی کو اپنے شہریوں کی ہلاکت کا اتنا ہی دُکھ ہے تو وہ کیوں کر افغانستان میں مزید امریکی فوجیوں کی تعیناتی کے مطالبات کررہے ہیں۔

طالبان اور اتحادی افواج کے درمیان جاری اس جنگ میں کون جیت رہا ہے یہ بتانا مشکل ہے لیکن یہ بتانا ہرگز مشکل نہیں کہ اس لڑائی میں نقصان افغانستان کا اور افغان عوام کا ہورہا ہے۔