1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دوسری عالمی جنگ، غرق شدہ جہاز پر لدے خزانے کی تلاش

27 ستمبر 2011

سات عشرے قبل جب ایس ایس گائرسوپا کو ایک جرمن آبدوز نے تارپیڈو کیا تھا تو ساتھ ہی اس جہاز پر لدی بہت سی چاندی بھی پانی میں غرق ہو گئی تھی۔

https://p.dw.com/p/12hAZ
تصویر: Archiv Hanse Sail Rostock

اب امریکی غوطہ خوروں نے  اس جہاز کے زیر آب بچے کھچے ڈھانچے سے اس خزانے کی تلاش میں کامیابی حاصل کر لی ہے ، یہ  اپنی نوعیت کا بہت بڑا خزانہ ہے کیونکہ اس کی مالیت کا اندازہ 210 ملین امریکی ڈالر کے برابر لگایا جا رہا ہے۔

امریکی ریاست فلوریڈا میں قائم ایک کمپنی Odyssey Marine Exploration کے مطابق اب تک گائر سوپا نامی بحری جہاز کی نہ صرف شناخت  ہو چکی ہے بلکہ اب تو اس میں سے خزانہ نکالنے کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق سن 1941 میں جب یہ برطانوی بحری جہاز آئر لینڈ کے ساحلوں سے تین سو میل یا 490 کلو میٹر شمال میں بحر اوقیانوس میں غرق ہوا تھا، تب اس پر 219  ٹن چاندی بھی لدی ہوئی تھی۔ تب اس قیمتی دھات کی قیمت چھ لاکھ پاؤنڈ بنتی تھی جس کی آج کی قیمتوں کے حساب سے مالیت 210 ملین امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔

Überfahrt Mittelmeer Ünglücke Schiffsuntergang Flash-Galerie
تصویر: picture-alliance/dpa

امریکی ریاست فلوریڈا میں قائم کمپنی اوڈیسی میرین ایکسپلوریشن کے مطابق جب یہ ساری چاندی سمندی کی تہہ سے نکال لی جائے گی  تو یہ سمندر کی تہہ میں گم ہو جانے والے دنیا کے اب تک کے سب سے بڑےخزانے کی دریافت ہے۔

اس بارے میں میامی سے ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اوڈیسی کے سینئر پروجیکٹ مینیجر اینڈریو کریگ کے مطابق اس امر کی تصدیق ہو چکی ہے کہ سمندر میں ایس ایس گائرسوپا کہاں غرق ہوا تھا۔ ’’اب ہمارے لیے اصل مرحلہ یہ ہے کہ سمندر سے اس جہاز کے ملبے سے چاندی جیسی قیمتی دھات کی برآمدگی جلدز جلد کیسے  شروع  کی جا ئے۔‘‘

اینڈریو کریگ کے بقول ایس ایس گائرسوپا سے قریب سات عشرے پہلے سمندر میں غرق ہو جانے والے چاندی کے بہت بڑے خزانے کی برآمدگی کا سلسلہ اگلے برس موسم بہار تک جاری رہے گا۔

Flash-Galerie Mahatma Gandhi Statue
تصویر: AP

اس سلسلے میں ٹیندر پیش کیے جانے کے ایک باقاعدہ عمل کے نتیجے میں لندن حکومت نے یہ کام امریکی کمپنی اوڈیشی کو سونپا تھا کہ وہ ایس ایس گائر سوپا کے ملبے سے چاندی کا غرق شدہ خزانہ دریافت کرے۔ معاہدے کے مطابق اوڈیسی کو یہ حق حاصل ہو گیا ہے کہ وہ گائر سوپا کے عشروں پرانے ملبے سے جتنی بھی چاندی برآمد کرتی ہے، اس کا 80 فیصد  اپنے پاس رکھےگی۔

گائرسوپا کی لمبائی 412 فٹ یا 125 میٹر کے قریب تھی۔ فروری سن 1941 میں ایس ایس گائرسوپا بھارت سے برطانیہ تک کا سفر کر رہا تھا۔ اس پر بہت سی چاندی کے علاوہ چائے بھی لدی ہوئی تھی۔ پھر کھلے سمندر میں بحری جہازوں کے ایک قافلےکے ساتھ دفن ہونے والا یہ جہاز ایک طوفان کا شکار ہو گیا تھا۔

تب اس بحری جہاز کو ایندھن کی کمی کا بھی سامنا تھا۔ اسی لیے اس کے کپتان نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ بحری قافلے سے ہٹ کر آئر لینڈ میں گال وے کی بندر گاہ کا رخ کرے گا۔ لیکن شمالی بحر اوقیانوس کے علاقے میں یہ بحری جہاز ایک جرمن جنگی آبدوز کا نشانہ بن گیا۔ اس طرح یہ جہاز ڈوب گیا تھا اور تب اس کے 85 رکنی عملے میں سے صرف ایک شخص زندہ بچا تھا۔

اس وقت اس برطانوی بحری جہاز کا ملبہ سمندر میں 4700 میٹر کی گہرائی میں پڑا ہوا ہے، جہاں سے چاندی نکالنے کے لیے اوڈیسی نامی ادارے کی تیاریاں اس وقت اپنے عروج پر ہیں۔

 رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: سائرہ شیخ

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں