1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دوسری عالمی جنگ کے سات عشرے بعد جرمنی اور جاپان کہاں ہیں؟

عاطف بلوچ12 اگست 2015

دوسری عالمی جنگ کو سات عشرے بیت گئے ہیں۔ جرمنی اور جاپان نے ماضی کی تلخ یادوں کو بھلانے کے لیے کیا کیا اقدامات اٹھائے اور مصالحت وثالثی کے لیے کیا کیا کوششیں کیں۔ آئیے ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GEEP
تصویر: picture-alliance/dpa/United States Library Of Congres

دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی اور جاپان دونوں نے اپنے اپنے براعظموں میں تباہی پھیلائی اور کئی ملین انسانوں کی ہلاکت کا باعث بنے۔ لیکن آج سات عشرے بعد جرمنی اپنی مصالحت پسندی اور ثالثی کی وجہ سے سراہا جاتا ہے جبکہ جاپان ابھی تک اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ کشیدگی کا احساس لیے دکھائی دیتا ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے 70 برس بعد آج دیکھا جائے تو جرمنی اور جاپان دونوں ہی نہ صرف عالمی سطح پر مالی امداد دینے کے حوالے سے انتہائی فیاض ہیں بلکہ ان کا شمار دنیا کی لبرل جمہوری ریاستوں میں بھی ہوتا ہے۔ تاہم یورپی اور شمال مشرقی ایشیائی ممالک میں جب جرمنی اور جاپان کا تقابلی جائزہ لیا جاتا ہے، تو ان دونوں ممالک میں موجود فرق بھی نمایاں ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد سرد جنگ کے دور میں یورپ کو سابق سوویت یونین سے خطرات لاحق تھے، جس نے یورپ کو مغربی جرمنی کے ساتھ مل کر کام کرنے پر مجبور کر دیا لیکن دوسری طرف شمال مشرقی ایشیائی ممالک کو متحد کرنے والی کوئی طاقت نہیں تھی۔

یورپ میں اتحاد کی کوششیں کرنے والے متعدد جرمن رہنما گزرے ہیں لیکن چین، شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے مطابق جاپان نے کبھی بھی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی مؤثر کوشش نہیں کی۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران ایشیا کو وسیع پیمانے پر تباہی کا شکار بنا دینے والے جاپانی بادشاہ ہیروہیٹو کو اس عالمی تنازعے کے بعد نہ تو کسی جنگی جرم کا ذمہ دار قرار دیا گیا اور نہ ہی ان کا احتساب کیا گیا۔ اسی طرح مشتبہ جنگی جرائم کے مرتکب دیگر رہنماؤں کو بھی کسی قانونی کارروائی کا سامنا نہ کرنا پڑا، جن میں موجودہ وزیر اعظم شنزو آبے کے دادا کان آبے بھی شامل تھے۔

ان تاریخی حوالوں کے تناظر میں سیول اور بیجنگ کی حکومتیں داخلی سطح پر حمایت حاصل کرتے ہوئے علاقائی سطح پر اپنے مقاصد کے حصول کی کوششوں میں لگ گئیں۔ جاپان اور جرمنی کو اپنے اپنے براعظموں میں کس طرح دیکھا جاتا ہے، آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

جنوبی کوریا

جنوبی کوریا اور جاپان کے پرتناؤ تعلقات کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں ایک متنازعہ شخصیت آہن یونگ گیون کو انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آہن یونگ گیون وہی شخص تھا، جس نے 1909ء میں جاپان کے سابق رہنما ایتو ہیروبومی کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ سیول میں یونگ گیون کے پوسٹر بھی بکتے ہیں۔

2009ء کے بعد سے جنوبی کوریا میں سالانہ بنیادوں پر ایک ایسے میوزیکل تھیٹر کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے، جس میں یونگ گیون کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ سیول میں یونگ گیون سے منسوب ایک میوزیم بھی ہے، جہاں اس کی زندگی اور حب الوطنی کے بارے میں تفصیلات جمع کی گئی ہیں۔

پوسان نیشنل یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر رابرٹ کیلے کے بقول پورے جنوبی کوریا میں جاپان کے بارے میں ایک منفی سوچ غیر معمولی طور پر سرایت کر چکی ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی ثقافتوں کی قدر بھی کرتے ہیں اور علاقائی سطح پر سلامتی کے معاملات پر تعاون بھی کرتے ہیں، جن میں شمالی کوریا کے جوہری عزائم سرفہرست ہیں۔

جنوبی کوریا میں ایک استاد ڈووَن ہیو نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’جاپان کبھی بھی دوسرا جرمنی نہیں بن سکتا۔‘‘ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی کی مصالحت اور ثالثی کی کوششوں پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ جاپان ماضی کی یادیں ہماری ذہنوں میں تازہ کرتا رہے گا۔

Warschau Kniefall Willy Brandt 1970
سابق جرمن چانسلر ولی برانٹ 70 کی دہائی میں وارسا میں قائم ایک جنگی یادگار پر اتنے مغموم ہوئے تھے کہ وہ گھٹنوں پر جھک گئے تھےتصویر: Imago/Sven Simon

پولینڈ

دوسری عالمی جنگ کا آغاز اس وقت ہوا تھا، جب یکم ستمبر 1939ء کو نازی جرمنوں نے اس یورپی ملک پر حملہ کر دیا تھا۔ موجودہ جرمنی میں اس عسکری کارروائی کے تناظر میں انتہائی دکھ پایا جاتا ہے۔ سابق جرمن چانسلر ولی برانٹ 70 کی دہائی میں وارسا میں قائم ایک جنگی یادگار پر اتنے مغموم ہوئے تھے کہ وہ گھٹنوں پر جھک گئے تھے۔ یہودیوں کی اس یادگار پر ان کے اس طرح جھک جانے کو ثالثی اور مصالحت پسندی کی ایک اعلیٰ مثال قرار دیا جاتا ہے۔

پولینڈ کی طرف جرمنی کا یہ دوستانہ رویہ ابھی تک جاری ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران پولینڈ میں چھ ملین افراد مارے گئے تھے، جن میں نصف تعداد یہودیوں کی تھی۔ یورپ میں کمیونزم کی ناکامی کے بعد جرمنی ہمیشہ ہی پولینڈ کی حمایت کرتا چلا آیا ہے۔ یورپی یونین اور نیٹو میں شمولیت پر بھی برلن حکومت نے وارسا کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔

گزشتہ برس یورپی یونین کے الیکشن میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے سابق پولش وزیر اعظم ڈونلڈ ٹُسک کی بھرپور حمایت کی اور وہ یورپی کونسل کے صدر منتخب ہوئے۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ کسی پولستانی سیاستدان کو یورپی یونین میں اتنا اہم عہدہ مل سکا۔

جرمنی اور پولینڈ کے تجارتی روابط بھی بہت شاندار ہیں جبکہ پالیسی سطح پر بھی دونوں ممالک میں گہری دوستی دیکھی جاتی ہے۔ کچھ برزگ پولستانی باشندوں میں اگرچہ ماضی کی کچھ تلخ یادیں زندہ ہیں لیکن نوجوان نسل بڑی حد تک پرانے تنازعات کو بھول چکی ہے۔

چین

چین کے تعلیمی نظام اور پاپولر کلچر میں اب بھی جاپان کی طرف سے ماضی میں ڈھائے جانے والے مظالم اور اذیتوں کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ کھیلوں کے مقابلوں میں بھی جاپان مخالف جذبہ نمایاں ہوتا ہے جبکہ اسی طرح دیگر حوالوں سے بھی بیجنگ حکومت اپنے ماضی کے حریف کو یاد رکھے ہوئے ہے۔

بحیرہ جنوبی چین کے تنازعے پر بھی ان دونوں ممالک کے پرتناؤ تعلقات مزید عیاں ہو جاتے ہیں۔ باسٹھ سالہ چینی کاؤ یونگ زُنگ کے بقول چین اور جاپان کے مابین نفرت کی کیفیت ایک حد تک ہمیشہ برقرار رہے گی۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم ان کی (جاپانی) مصنوعات خریدیں گے لیکن ہم انہیں پسند نہیں کریں گے۔‘‘

Kerzen Jahrestag Konzentrationslager Auschwitz
دوسری عالمی جنگ کے دوران پولینڈ میں چھ ملین افراد مارے گئے تھے، جن میں نصف تعداد یہودیوں کی تھیتصویر: AP

ہالینڈ

دوسری عالمی جنگ کے دو اہم حریف جرمنی اور ہالینڈ آج نہ صرف اقتصادی طور پر بہت اچھے پارٹنر ہیں بلکہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اور یورپی یونین میں بھی بہت اچھے دوست ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمنوں نے ہالینڈ میں ایک لاکھ سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ انہی میں ایک یہودی لڑکی این فرانک بھی شامل تھی، جس نے اس دور کی مصیبتوں کو اپنی ڈائری میں اتار لیا تھا۔ ایمسٹرڈم میں واقع ایک میوزیم میں اس لڑکی کی یادیں اب بھی زندہ ہیں۔ تاہم یہ تلخ یادیں اب ایسی نہیں کہ یہ دونوں ممالک ان کی بنیاد پر خود کو تقیسم کر لیں۔