1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دُبئی ایئر شُو پر یمن کی جنگ کے گہرے اثرات نمایاں

کشور مصطفیٰ13 نومبر 2015

تیل کی قیمتوں میں کمی اور پھر یمن جنگ میں شرکت نے اسلحے کی خرید کے حوالے سے خلیجی عرب ممالک کے رویے کو تھوڑا محتاط کر دیا ہے۔ جنگی حالات کی وجہ سے اب ان کی زیادہ تر توجہ فوری اور ضروری جنگی ساز وسامان کی خرید پر ہے۔

https://p.dw.com/p/1H5H4
تصویر: AFP/Getty Images/K. Sahib

اس بات کا اندازہ دُبئی میں آٹھ سے بارہ نومبر تک جاری رہنے والے ایئر شو سے بھی ہوا۔ خلیجی عرب طاقتوں کا اس بارے میں محتاط رویہ اس بات کی علامت نہیں کہ ان امیر سلطنتوں نے اسلحے کے انبار جمع کرنا چھوڑ دیا ہے۔ سعودی عرب مثال کے طور پر اپنی بحریہ کو جدید تر بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور کویت اب بھی بوئنگ کمپنی سے تین ارب ڈالر کے جنگی طیارے جبکہ بوئنگ کمپنی سے سات بلین ڈالر کے یورو فائٹرز خریدنے پر تلا ہوا ہے۔

امریکا کی سُنی اتحادی مسلم بادشاہتوں کی طرف سے ایسے پراجیکٹس پر سرمایہ کاری کا جزوی مقصد شیعہ ایران سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اُس کا جواب دینا ہے۔ ریاض میں ایران کو ایک توسیع پسندانہ طاقت کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو1979ء کے اسلامی انقلاب کو دیگر علاقوں تک پھیلانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔

Emirates Airline Flugzeug
متحدہ عرب امارات نے بوئنگ سے کئی لڑاکا طیارے خریدے ہیںتصویر: C. Furlong/Getty Images

ملٹری اور سویلین سیل میں کمی

متحدہ عرب امارات کی وزارت دفاع کے اسٹریٹیجک تجزیے کے شعبے کے ایگزیکٹیو میجر جنرل عبداللہ الہاشمی کے بقول، ’’تیل کی کم قیمتوں کے سبب مارکیٹ پر ایک قسم کی خاموشی چھائی ہوئی ہے‘‘۔ اُن کا مزید کہنا تھا، ’’تمام دنیا ایک قسم کے بحران سے گزری رہی ہے کیونکہ تیل کی قیمتوں نے ہر کسی کو متاثر کیا ہے‘‘۔

دُبئی میں منعقد ہونے والے ایئر شُو میں اس بار ملٹری اور سول دونوں طرح کی مصنوعات کی مشترکہ فروخت 40 بلین ڈالر ریکارڈ کی گئی۔ اس کے مقابلے میں 2009ء میں اس کا حجم 150 بلین ڈالر اور 2013ء میں 200 بلین ڈالر رہا تھا۔ اس سال کی سیل 2011ء کی سیل کے تقریباً برابر ہی رہی۔

بغاوتیں

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یمن کی جنگ کی نامعلوم طوالت اور اخراجات، بے یقینی میں اضافے اور سب سے بڑھ کر تیل کی قیمتوں میں حالیہ کمی اقتصادی بوجھ میں اضافے کا باعث بنی ہے۔ دُبئی کے ایئر شو میں شریک ایک سینیئر مندوب کا کہنا تھا کہ یہ تین طرح کا دباؤ ہے۔ ایک تو تیل کی قیمتوں کا، دوسرا جنگوں پر آنے والے اخراجات اور ان جنگوں کے سماجی اثرات کی شکل میں آنے والے اخراجات۔ اس سے اُن کی مُراد فوجیوں کی ہلاکتوں کے سماجی اثرات سے تھی۔

VAE Flugshow in Dubai
دُئی کا ایئر شُوتصویر: picture-alliance/dpa/M. Lystseva

متحدہ عرب امارات کی فضائیہ کے کمانڈر میجر جنرل ابراہیم ناصر العلوی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ گولے بارود کا دستیابی، اسپیئر پارٹس اور لاجسٹکس کی فراہمی کسی بھی فوجی آپریشن میں بنیادی اہمیت کا حامل عمل ہوتا ہے۔

اس ایئر شُو میں شامل امریکی فضائیہ کے اہلکاروں کے بیانات بھی اسی قسم کے حقائق کی باز گشت معلوم ہو رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے خطے کو اسلحہ جات کی فراہمی کے لیے مزید منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

امریکی فضائیہ کی سنٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل چارلس براؤن کے بقول، ’’ہم میں سے کسی نے بھی یہ نہیں سوچا تھا یا اس کی پیشگوئی نہیں کی تھی کہ عراق، شام اور یمن میں ایک ساتھ آپریشنز شروع ہو جائیں گے‘‘۔ امریکی کمنڈر نے کہا ہے کہ آئندہ امریکا کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ اس بارے میں حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔