1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت گردانہ واقعات میں معذور ہونے والے عملی میدان میں

عابد حسین29 دسمبر 2015

پاکستان میں دہشت گردانہ واقعات میں اعضاء سے محروم ہونے والے افراد معاشرتی طور پر بوجھ بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہیں مصنوعی اعضاء فراہم کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/1HUxg
تصویر: picture-alliance/dpa/R.Parihan

سابقہ سوویت یونین کی افغانستان میں فوج کشی کے بعد افغان مہاجرین اور زخمیوں کی پاکستان آمد کے وقت صوبہ خیبر پختونخوا میں مصنوعی اعضاء فراہم کرنے کے ادارے کا قیام عمل لایا گیا اور یہ ادارہ اعضاء سے محروم ہونے والے افغانیوں کے لیے مصنوعی اعضاء تیار کرنے لگا۔ سن 1981 میں قائم ہونے والا پاکستان انسٹیٹیوٹ برائے پراستھیٹک اور اورتھیٹک سائنسز یا پیپوس (PIPOS) سالانہ بنیادوں پر دس ہزار مریضوں کے لیے مصنوعی اعضاء کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے کیونکہ اب دہشت گردانہ واقعات میں پاکستانی بھی ہاتھ، پاؤں یا ٹانگ سے محروم ہو رہے ہیں۔ اِس ادارے نے اُن افراد کے لیے بھی اعضاء فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جو دہشت گردانہ واقعات میں زخمی نہیں ہوتے۔ اِس ادارے میں لائے جانے والے بیشتر مریضوں کو مصنوعی اعضاء کی فراہمی مفت کی جاتی ہے اور ایسے مفت اعضاء کی فراہمی انٹرنیشنل ریڈ کراس کی مدد سے کی جاتی ہے۔

پاکستان میں رونما ہونے والے دہشت گردانہ واقعات میں اعضاء سے محروم ہونے والے افراد کے لیے مصنوعی اعضاء کی فراہمی کے ادارے کے علاوہ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے خصوصی مراکز بھی ایسے زخمیوں کے لیے علاج معالجے کو سہولت فراہم کر رہے ہیں۔ دوسری جانب اعضاء سے محروم افراد کے لیے پاکستانی معاشرے میں مختلف احساسات پائے جاتے ہیں۔ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈز کے پاکستانی دفتر کی ترجمان شائستہ عزیز کا خیال ہے کہ پاکستانی سوسائٹی میں معذوروں کو خاندان پر بوجھ خیال کیا جاتا ہے اور خاص طور پر جوان مرد کی معذوری پر معاشرتی مسائل بڑھ جاتے ہیں۔

PIPOS Rehabilitation Pakistan Institut für Prothetik
پاکستان انسٹیٹیوٹ برائے پراستھیٹک اور اورتھیٹک سائنسز میں ایک مریض کا معائنہ جاری ہےتصویر: Fareed Ullah Khan

ایک برطانوی غیر سرکاری تنظیم ’ایکشن آن آرمڈ وائلنس‘ کے مطابق سن 2011 سے لے کر سن 2013 کے درمیان پرتشدد واقعات میں عام شہریوں کی ہلاکت میں ستر فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ برائے پراستھیٹک اور اورتھیٹک سائنسز یا پیپوس کے ڈائریکٹر ضیا الرحمان کے مطابق معذور افراد کے لیے مصنوعی اعضاء کی فراہمی انہیں ایک نئی زندگی فراہم کرتی ہے اور وہ خاندان پر بوجھ بننے کے بجائے خود کمانے کے عمل کا حصہ بنتے ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردانہ واقعات میں شدید زخمی ہو کر اعضاء سے محروم افراد کی تعداد انتہائی زیادہ ہے۔ ایسے افراد کی تعداد افغانستان اور عراق کے برابر ہے جہاں طالبان اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ساتھ ساتھ دوسرے جہادی گروپ دہشت گردانہ کارروائیوں کا مسلسل ارتکاب کر رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں دہشت گردانہ واقعات کی نگرانی کرنے والے ایک گروپ کے مطابق سن 2004 سے پاکستانی قبائلی علاقوں سے حکومتی اختیار کو چیلنج کرنے والے پرتشدد سلسلے میں اب تک سویلین اور سلامتی کے اداروں کے ستائیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب دنیا بھر میں بارودی سرنگوں کا استعمال سن 1990 کے بعد انتہائی کم ہو چکا ہے لیکن اختراع شدہ بارودی مواد کا استعمال دہشت گردی کا سامنا کرنے والے ملکوں میں بہت بڑھ گیا ہے۔ پرتشدد کارروائیوں میں ملوث افراد ایسے دیسی ساختہ اور غیر مروجہ باروردی ڈیوائسز کی معلومات کو دوسرے گروپوں کے ساتھ شیئر کرنے سے گریز نہیں کرتے۔