1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’دہشت گردی کو کسی مذہب، ملک یا نسل سے جوڑنا مناسب نہیں‘

عاطف توقیر16 نومبر 2015

دنیا کے ترقی یافتہ اور تیزی سے ترقی کرتے ہوئی ممالک کے گروہ جی 20 کا کہنا ہےکہ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی بین الاقوامی امن و سلامتی اور عالمی اقتصادی ترقی کے لیے خطرہ ہے۔

https://p.dw.com/p/1H6p9
G-20-Gipfel in Antalya - Gruppenbild
تصویر: Getty Images/AFP/S. Loeb

ترک صوبے انطالیہ کے ساحلی مقام بیلیک میں منعقدہ جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس کے بعد جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کا انسداد انتہائی ضروری ہے، تاہم بیان میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کو کسی مذہب، ملک یا نسل سے جوڑنا مناسب نہیں ہو گا۔

اس بیان میں زور دیا گیا ہے کہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے مشترکہ اقدامات کے علاوہ دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث گروپوں کو سرمایے کی فراہمی روکنے کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔

پیرس حملوں کا سایہ سربراہی اجلاس پر

اس اجلاس میں سرحدوں پر جانچ پڑتال کے عمل میں سختی، معلومات کے تبادلے اور عالمی ایوی ایشن سکیورٹی کے موضوعات پر ایک دوسرے کی مدد پر اتفاق ظاہر کیا گیا، تاہم پیرس میں پیش آنے والے دہشت گردانہ واقعے کا موضوع اس سربراہی اجلاس پر چھایا رہا۔

G-20-Gipfel in Antalya Obama und Erdogan
امریکی صدر اوباما اور ترک صدر ایردوآن کے درمیان ملاقاتتصویر: picture alliance/AA/K. Ozer

اجلاس میں شریک امریکی صدر باراک اوباما نے کہا کہ پیرس حملے اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جاری لڑائی کے لیے ایک دھچکا تھے، تاہم انہوں نے کہا کہ شام اور عراق میں اس دہشت گرد گروہ کے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں اور مجموعی طور پر پیش رفت سامنے آ رہی ہے۔

صدر اوباما کا کہنا تھا، ’’پیرس میں پیش آنے والے ہولناک واقعات یقیناﹰ پریشان کن تھے۔ ہم اپنے فرانسیسی دوستوں کے دکھ میں شامل ہیں، تاہم ہمیں یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ عراق اور شام میں اس تنظیم کے خلاف کارروائیوں میں اب تک خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔‘‘

صدر اوباما نے کہا کہ اس دہشت گرد گروہ کے خلاف قائم عالمی اتحاد اب ان فضائی کارروائیوں میں شدت لا رہا ہے۔ صدر اوباما نے تاہم شام یا عراق میں امریکی زمینی فوجی کارروائیوں کے امکانات کو رد کیا۔

Türkei Pressekonferenz G20 Gipfel Angela Merkel
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی اس جلاس میں شرکت کیتصویر: DW/B. Riegert

یوکرائن کا مسئلہ

اس اجلاس کے موقع پر عالمی اقتصادیات اور انسداد دہشت گردی کے ساتھ ساتھ شام میں قیام امن کے لیے سیاسی مذاکرات اور یوکرائن کا تنازعہ بھی موضوعِ گفتگو بنے۔

جی 20 اجلاس میں شریک روسی صدر ولادیمر پوٹن نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں یوکرائن کے ذمے واجب الادا سرمایے کی واپسی کے اوقات میں تبدیلی پر آمادگی ظاہر کی۔ اب یوکرائن ایک بلین ڈالر کے لحاظ سے یہ واجبات اگلے تین برس تک ادا کرے گا۔ تاہم اس سلسلے میں روس نے مغربی ممالک کی ضمانت کا مطالبہ کیا ہے۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے عالمی برادری کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل اپنانے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صرف اسی طریقے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ اور ٹھوس عزم اس سربراہی اجلاس کا خاصہ رہا۔

فرانسوا اولانڈ کی عدم شرکت

فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ کو بھی اس سربراہی اجلاس میں شریک ہونا تھا، تاہم پیرس حملوں کے تناظر میں انہوں نے اپنا دورہ ترکی منسوخ کر دیا۔ پیر کے روز پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں اولانڈ نے قانون سازوں پر زور دیا کہ وہ ملک میں نافذ ہنگامی حالت کی مدت میں تین ماہ کی توسیع کے لیے حکومت کی جانب سے پیش کردہ بل کو منظور کر لیں۔ انہوں نے پارلیمان سے درخواست کی کہ اس سلسلے میں پیش کردہ بل کو رواں ویک اینڈ پر ہی منظور کر لیا جائے۔

پیر کے روز اولانڈ نے اپنی کابینہ کے ساتھ پیرس میں ایک جامعہ کا دورہ بھی کیا۔ اس موقع پر اولانڈ اور ان کی کابینہ کے تمام افراد نے سیاہ لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ اس موقع پر جمعے کے روز پیرس میں مختلف مقامات پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں ہلاک ہونے والے 129 افراد کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

جی 20 اجلاس میں بھی سات یورپی رہنماؤں نے پیرس حملوں کے متاثرین کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔ ان رہنماؤں میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل، برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون، اطالوی وزیراعظم ماتیو رینزی، فرانسیسی وزیرخارجہ لوراں فابیوس، یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹُسک اور یورپی کمیشن کے سربراہ ژاں کلود ینکر شامل تھے۔