1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت گردی کے خلاف جنگ

22 ستمبر 2008

پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں میرئیٹ ہوٹل پر خوفناک خودکش حملہ ملک کی سلامتی کی خطرناک صورتحال کی صرف ایک جھلک ہے۔

https://p.dw.com/p/FN2G
تصویر: AP

افغانستان سے ملحقہ سرحد کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں میں جن کا زیادہ تر حصہ بہت پہلے ہی سے طالبان کے کنٹرول میں ہے صورتحال نمایاں طور پر خراب تر ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر قسم کے زبردست حملوں کے بعد سخت اقدامات کے پر عزم اعلانات ایک روایت بن چکے ہیں لیکن ان کا مطلب آخر کیا ہے؟ فوجی لحاظ سے طالبان اور القاعدہ کو شمال مغربی پاکستان میں شکست دینا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ گزشتہ سات برسوں میں افغانستان میں اتحادی فوجوں کی ناکامی سے ظاہر ہوتا ہے۔ فوجی کاروائیوں سے تو ویسے ہی دہشت گردی کے خلاف تحفظ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس کے برعکس عام طور سے مسلح افواج کی کاروائیوں کے بعد ان کے جواب میں بموں کے دھماکوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

اب بھی یہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ امریکہ نے گزشتہ ہفتوں کے دوران علاقے میں اپنے دباؤ کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صدر بش نے اتحادی فوج کو پوچھے بغیر افغانستان سے پاکستانی علاقے میں گھس کر کاروائی کی اجازت دے دی ہے۔ پاکستان میں امریکہ کی مخالفت بہت شدید ہے اور اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بہت سے غالبا زیادہ تر پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مسلم دنیا کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ بہت سے پاکستانی فوجی طالبان کو دشمن نہیں بلکہ سب سے پہلے درجے پر اپنے ہم وطن کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔

Präsidentenwahl in Pakistan - Zardari pixel
پاکستانی صدر آصف علی زرداریتصویر: picture-alliance/ dpa

سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ سے مالی فائدہ اٹھایا سینکڑوں پاکستانیوں کو مقدمات چھالئے بغیر غائب کرا دیا گیا۔ فوج کو خفیہ ادارے ایک دوہرے کھیل میں بار بار شدت پسنوں کی بھی مدد دے رہے ہیں۔ ان تمام باتوں نے دہشت گردی کے خالف جنگ سے عوام کو متنفر کر دیا ہے۔

در حقیقت ایک متبادل سیاسی پالیسی اس قدر مشکل نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب طالبان کے سامنے جھکنا نہیں بلکہ پہلے انہیں سیاسی طور سے الگ تھلگ کرنا ہوتا۔ پاکستان میں انہیں ویسے بھی کوئی کوئی خاص سیاسی مقبولیت حاصل نہیں تاہم شدت پسندوں کے خلاف ایک جمہوری اور اعتدال پسند طاقتوں کے ایک وسیع اتحاد کو تشکیل دینے کے لئے ضروری ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ غیر ملکی اشاروں پر نہ لڑی جائے اور اس میں قانونی طور پر جائز طریقے استعمال کئے جائیں۔ المیہ یہ ہے اس کے امکانات اس سال پالیمانی انتخابات کے بعد ایک بڑی مخلوط حکومت کے قیام کے بعد پیدا بھی ہوئے تھے لیکن موجودہ صدر زرداری نے آزاد عدلیہ کو بحال کرنے سے انکار کر کے نواز شریف کو مخلوط اتحاد سے نکال باہر کیا۔

زرداری کے عہدہ سنبھالنے کے کچھ ہی بعد بہت سے پاکستانی انہیں مشرف اور افغان صدر کرزئی کی طرح سے واشنگٹن کی کٹھ پتلی سمجھ رہے ہیں۔ اس سے دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف جنگ پر بہت برے اثرات پڑنے کا خطرہ ہے۔