1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دیر اور بونیر میں فوجی آپریشن کا فیصلہ گزشتہ جمعے کو ہوا

امتیاز گل، اسلام آباد28 اپریل 2009

دیر اور بونیر کے علاقے میں فوجی آپریشن کا فیصلہ گزشتہ جمعے کے روز جنرل ہیڈ کوارٹر میں عسکری قیادت کی کانفرنس میں ہوا تھا جس میں سوات کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل اعجاز اعوان بھی شامل تھے ۔

https://p.dw.com/p/Hg6t
دیر اور بونیر میں فوجی آپریشن کا فیصلہ پاکستانی افواج کے سربراہ اور دیگر اعلی فوجی قیادت کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا گیاتصویر: AP

فوج کے سربراہ جنرل اشفاق کیانی کی سربراہی میں منعقدہ اس کانفرنس میں متعلقہ کمانڈروں کو بتایا گیا کہ طالبان عسکریت پسند سوات کے اطراف کے علاقوں میں بشمول بونیر اور شانگلہ میں نظام عدل ریگولیشن کو بہانہ بنا کر اپنی سرگرمیاں بڑھا رہے ہیں اور صوبائی حکومت کی درخواست پر مالا کنڈ کے ان علاقوں میں آپریشن کا فیصلہ کیا گیا ہے جہاں عسکریت پسندوں اور جرائم پیشہ گروہوں کی کارروائیوں کے باعث بتدریج خراب ہو رہے ہیں ۔

فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے آپریشن کا پس منظر بتاتے ہوئے کہا: ”بونیر سے نوجوان لڑکوں کو زبردستی بھرتی کرنا اور سوات میں عسکری تربیت کے لئے لے جانا مسلح گروہوں کا گشت عوام میں خوف و ہراس کا پیدا کرنا ، لوگوں کی گاڑیوں سے کیسٹ ریکارڈر نکالنا ،ان کو توڑنا اور ان کو بے عزت کرنا ، بونیر کے عوام خوف و ہراس کی فضاءمیں سانس لے رہے تھے ، اس آپریشن میں فرنٹیئر کور اور فوج کے دستے حصہ لے رہے ہیں۔ آپریشن کے اہداف میں بونیر سے عسکریت پسندوں کا خاتمہ اور مکمل انخلاء ہے ۔“جنرل اطہر عباس کا دعویٰ تھا کہ دیر علاقے کو شرپسندوں سے خالی کرا لیا گیا ہے اور یہ کہ بونیر میں ایسے گروہوں کے خاتمے کے بعد یہاں مستقل فوجی اور نیم فوجی چوکیاں بھی قائم کی جائیں گی۔

دوسری طرف تحریک نفاذ شریعت محمدی نے حکومت پر سوات معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے تاہم گزشتہ چند ہفتوں کے واقعات سے ظاہر ہو رہا تھا کہ دراصل طالبان معاہدے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے تھے جس کے باعث مولانا صوفی محمد بھی طالبان عسکریت پسندوں کے سامنے بے بس نظر آ رہے تھے۔ مبصرین کے مطابق اگرچہ فوجی قیادت عسکریت پسندوں کے قلع قمع کے متعلق کافی پرامید نظر آتی ہے تاہم قبائلی علاقوں کے تجربے اور اس علاقے کی جغرافیائی صورتحال کے پیش نظر جلد کامیابی شاید آسان نہ ہو۔