1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

110811 Todesstreifen grünes Band

12 اگست 2011

دیوار برلن کی تعمیر پچاس سال پہلے تیرہ اگست سن 1961 کو شروع ہوئی تھی۔ دیوار برلن کو سن 1989 میں منہدم کر دیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/12FTN
تصویر: RÖHRBEIN/ULLSTEIN BILD

دو عشروں سے بھی زيادہ عرصہ قبل اس دیوار کے گرائے جانے اور کميونسٹ مشرقی جرمنی کے خاتمے کے بعد سے، جرمنی کے دونوں حصوں کو تقسيم کرنے والی سرحدی پٹی موت کی پٹی نہيں رہی، جسے عبور کر کے سابقہ مغربی جرمنی آنے کی کوشش کرنے والے، مشرقی جرمن سرحدی فوج کی گوليوں کا نشانہ بنتے تھے۔ موت کی يہ سابقہ سرحدی پٹی اب ايک سبز پٹی ميں تبديل ہو چکی ہے۔

ماضی کی مشرقی اور مغربی جرمنی رياستوں کی درميانی سرحد کی يہ پٹی 1400 کلوميٹر طويل ہے۔ يہاں دريائے ايلبے بہتا ہے جو ماضی ميں دونوں جرمن رياستوں کا سرحدی دريا تھا۔

DOSSIER Thema Mauerbau Mauer Berlin TEIL 2
یہ دیوار 50 برس قبل تعمیر کی گئی تھیتصویر: picture alliance/dpa

آج موت کی يہ سابقہ پٹی دلکش قدرتی مناظر پيش کرتی ہے، جن ميں سبزہ زاراور تالاب شامل ہيں۔ يہاں حيوانات اور نباتات کی ايسی 600 اقسام ملتی ہيں جو دوسری جگہوں پر ناپيد ہو جانے کے خطرے سے دوچار ہيں۔ قدرتی ماحول کے تحفظ کی جرمن انجمن کے ڈيٹر ليوپولڈ نے کہا: ’’يہ بات خاص طور پر خوشی کی ہے کہ چار سال قبل دريائی عقاب کی نسل ايک بار پھر اس سبز پٹی ميں اپنا مسکن بنا چکی ہے۔ اس کی نئی نسل کی افزائش بھی يہيں ہو رہی ہے۔‘‘

دريائی عقاب کو يہاں بڑی مقدار ميں تازہ مچھلی بھی مل رہی ہے، حالانکہ جب يہ پٹی دونوں جرمن رياستوں کی درميانی سرحدی پٹی تھی، تو يہ تقريباً خشک جگہ بن چکی تھی۔ جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد اس علاقے ميں بحالی اور ترقی کا کام ہوا اور يہاں حيوانات اور نباتات کی دنيا ايک بار پھر آباد ہوگئی۔

تاہم يہاں آنے والے سياحوں کے ليے اس سبز پٹی ميں پائے جانے والے حيوانات اور نباتات کو ديکھنا اتنا آسان بھی نہيں ہے۔ قدرت اکثر نظارہ کرنے والوں سےبہت کچھ چھپائے رکھتی ہے۔ اس کے باوجود يہاں سرحدی تناؤ کے سايے ميں جو کچھ پروان چڑھتا رہا ہے وہ يکتا نوعيت کا ہے۔ اس کی تصديق يونيسکو نے بھی کی ہے، جس نے ايلبے کے دريائی علاقے کو بہت سختی سے محفوظ کيا جانے والا علاقہ قرار ديا ہے۔ دريائے ايلبے کا 650 کلو ميٹر سے بھی زيادہ لمبا حصہ ابھی تک اپنی قدرتی حالت ميں ہے۔

رپورٹ: رچرڈ فُکس / شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں