1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’رائٹرز اِن ایگزائل‘‘: سچائی کی تلاش کا سفر آسان نہیں

امجد علی / کشور مصطفےٰ30 جون 2009

تعاقب کے شکار ادیبوں اور صحافیوں کی مدد کے لئے سن 1999ء میں شروع کئے گئے’’PEN جرمنی‘‘ کے خصوصی پروگرام ’’رائٹرز اِن ایگزائل‘‘ کو دس سال مکمل ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/Idxz
تصویر: AP

سچائی کی تلاش کوئی آسان کام نہیں جبکہ دنیا کے کئی ملکوں میں سچ کی تلاش کے سفر میں جان جانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ جرمنی کے پَین سینٹر کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس دنیا بھر میں تقریباً بیس ادیبوں اور صحافیوں کو اُن کی ناقدانہ رائے کے اظہار کی پاداش میں قتل کر دیا گیا جبکہ تقریباً دو سو کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا۔ اِس جرمن ادارے نے دَس سال پہلے تعاقب کے شکار ادیبوں اور صحافیوں کی مدد کے لئے ایک پروگرام شروع کیا تھا۔

تعاقب کے شکار ادیبوں اور صحافیوں کے لئے پین سینٹرکے پروگرام ’’رائٹرز اِن ایگزائل‘‘سے استفادہ کرنے والوں میں ایرانی صحافی فراج سرکوہی بھی شامل ہیں، جن کی تحریریں اُن کے ملک کی حکومت کے لئے پریشانی کا سبب بن گئی تھیں۔ گذشتہ دَس برسوں سے وہ پین سینٹر کے پروگرام کے تحت جرمنی میں رہ رہے ہیں۔ فرینکفرٹ شہر کے قدیم حصے میں اُن کا گھر کتابوں اور ایسی اَشیاءسے بھرا ہوا ہے، جو اُنہیں اُن کے وطن کی یاد دلاتی رہتی ہیں۔ اپنی ناقدانہ تحریروں ہی کی پاداش میں فراج سرکوہی کو سزائے موت سنا دی گئی تھی اور اُنہیں نو سال جیل میں گذارنا پڑے۔

وہ کہتے ہیں: ’’جیل میں تشدد کی ایک صورت یہ بھی ہے۔ وہ بار بار یہ کہتے رہتے ہیں کہ آج تمہیں پھانسی دے دی جائے گی۔ اِس کے بعد وہ آخر تک ساری رسمیں پوری کرتے ہیں اور عین آخری لمحے میں کہتے ہیں کہ اُن سے غلطی ہو گئی تھی۔ اِس کے بعد وہ تمہیں زندہ رہنے کی مزید دو تین روز کی مہلت دے دیتے ہیں۔‘‘

Faradsch Sarkuhi Herausgeber der Literaturzeitschrift Adineh
چھ مئی سن 1998ء کی اِس تصویر میں ایرانی ادیب اور صحافی فراج سرکوہی فرینکفرٹ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیںتصویر: picture-alliance / dpa

بین الاقوامی سطح پر احتجاج کا نتیجہ یہ نکلا کہ90 ء کے عشرے کے اواخر میں سرکوہی کو رہا کر دیا گیا۔ پین تنظیم کے ”رائٹرز اِن ایگزائل“ پروگرام نے باسٹھ سالہ سرکوہی کی مدد کی اور اُنہیں جرمنی لایا گیا۔

یہاں جرمنی میں اُنہیں مالی مدد کے ساتھ ساتھ علاج معالجے کی سہولتیں بھی فراہم کی گئیں لیکن کئی ایک رکاوٹیں پھر بھی قائم رہیں۔ وہ بتاتے ہیں:’’انسان کو ایک نئے معاشرے کو جاننا اور سمجھنا پڑتا ہے، میری عمر میں ایک نئی زبان سیکھنا پڑتی ہے، نئے سرے سے زندگی کی بنیادیں کھڑی کرنا پڑتی ہیں۔ ادیبوں کے لئے جلاوطنی میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی زبان اور اپنے قارئین سے محروم ہو جاتے ہیں۔‘‘

اِن جلا وطن ادیبوں کو سال میں ایک بار مل بیٹھنے کا موقع ملتا ہے۔ تب اِس پروگرام سے استفادہ کرنے والے نئے اور پرانے ادیب ایک دوسرے کو اپنی تحریریں پڑھ کر سناتے ہیں، نئے رابطے اُستوار کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہءخیال کرتے ہیں۔ دَس سال پہلے ”رائٹرز اِن ایگزائل“ نامی پروگرام پین جرمنی اور اُس کے صدر ژوہانو شٹراسر نے شروع کیا تھا۔

شٹراسر بتاتے ہیں: ’’نازی سوشلسٹ دور میں بہت سے فنکاروں، ادیبوں اور محققوں کو سیاسی تعاقب کا سامنا رہا۔ اِن لوگوں کو دیگر ممالک نے بچایا اور اپنے ہاں پناہ دی۔ تب دی جانے والی اِس مدد کے لئے ہمارا یہ پروگرام ایک طرح سے ادنیٰ سا شکریہ ہے۔‘‘

25 سالہ صحافی عِطائی مُشیک وے کا تعلق زمبابوے سے ہے اور وہ پین جرمنی کے اِس پروگرام سے استفادہ کرتے ہوئے گذشتہ ایک برس سے کولون میں مقیم ہیں۔ وہ زمبابوے کے حکمران رابرٹ موگابے کے حکومتی حلقوں میں بدعنوانی کے ایک اسیکنڈل کی تفصیلات منظر عام پر لائے تھے اور تب سے وہاں کی سیکرٹ سروس کی ہِٹ لسٹ پر ہیں۔

وہ بتاتے ہیں: ’’زمبابوے میں صحافی کے طور پر کام کرنا آج کل ایسے ہی ہے، جیسے کسی بارودی سرنگ کے اوپر چلنا۔ یہ کام کافی خطرناک ہے۔ ذرائع ابلاغ پر حکومت کا کنٹرول ہے۔ ابھی چند ہفتے پہلے میرےسابقہ اخبار کے مدیرِ اعلیٰ اور میرے ایک ساتھی کو گرفتار کر لیا گیا۔‘‘

آج کل عِطائی مُشیک وے انٹرنیٹ اور بیرونی دنیا میں زمبابوے کے ذرائع ابلاغ کے لئے لکھتے ہیں۔ ”رائٹرز اِن ایگزائل“ کی طرف سے وظیفہ ایک سال تک دیا جاتا ہے، جس کے بعد زیادہ تر ادیب اور صحافی یہیں یورپ میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی درخواست دے دیتے ہیں۔ عِطائی مُشیک وے بھی غالباً یہی راستہ اختیار کریں گے۔

لفظ کی آزادی کے علمبردار اِن ادیبوں اور صحافیوں کو جان کی سلامتی تو مل جاتی ہے لیکن اپنے وطن سے محرومی کی صورت میں اِنہیں اپنی سلامتی کی بہت بھاری قیمت بھی چکانا پڑتی ہے۔