1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رابن رافیل کا پاکستان کی حمایت میں بیان، سوشل میڈیا پر بحث

عبدالستار، اسلام آباد
24 جولائی 2017

پاکستان میں کئی حلقوں نے سابق امریکی سفارتکار رابن رافیل کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی آرمی کے افسران کی نئی نسل دہشت گردی کے مسئلے پر اپنے پیش رو سے زیادہ حساس ہیں۔

https://p.dw.com/p/2h4JP
US Diplomatin Robin Raphel
تصویر: Getty Images/M. Wilson

پاکستانی امور پر ماہر تصور کی جانے والی سابق امریکی سفارتکار اور دانشور رابن رافیل نے یہ بات امریکا میں ایک سیمینار کے دوران اپنی تقریر میں کہی، جہاں افغان سفیر برائے امریکا حمداللہ محب نے پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی تھی۔ رابن رافیل نے کہا کہ واشنگٹن کے طرف سے مبہم پالیسی اپنائے جانے کی وجہ سے اسلام آباد حقانی نیٹ ورک سے تعلقات نہیں توڑ رہا ہے۔

پاکستان کے تعاون کے بغیر خطے میں قیام امن ممکن نہیں، مک کین

 طالبان سے مذاکرات کا امریکی مطالبہ اور پاکستان کی مشکلات

’سرحد پار سے دہشت گردی‘ کے خلاف بین الاقوامی معاہدے کی ضرورت

حمداللہ محب نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان ایک ایسی ریاست سے، جو دہشت گردی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے، ایک ایسی ریاست بننے جا رہی ہے، جو دہشت گردی پر یقین رکھتی ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ پاکستانی فوج کے نئے افسران دہشت گردی پر ایک نظریے کے طور پر یقین رکھتے ہیں اور جب یہ افسران ترقی کرتے ہوئے اوپر پہنچیں گے تو دنیا کے لیے زیادہ مسائل پیدا کریں گے۔

پاکستان میں کئی تجزیہ نگار رافیل کی اس بات سے متفق ہیں کہ پاکستان کی آرمی کے نئے افسران دہشت گردی کے مسئلے پر زیادہ حساس ہیں۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پاکستان میں اس وقت آرمی یکسوئی سے دہشت گردی کے خلاف لڑائی لڑ رہی ہے۔ نوجوان افسران ہوں یا سینیئر قیادت اس حوالے سے کسی کے ذہن میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ مشرف کے دور میں ایسا ہوا تھا کہ کچھ افسران نے حکم عدولی کی تھی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پر اعتراضات کیے تھے لیکن وہ ایک آمرانہ دور تھا اور اس حکومت کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں تھی لیکن اب ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ نے گزشتہ دس برسوں میں کوئی ایسا واقعہ نہیں دیکھا کہ جہاں افسران کی طرف سے حکم عدولی کی کوئی بات ہو۔ تو یہ سب افغان حکومت کا پروپیگنڈا ہے، جس کا حقیقیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘

آپریشن خیبر فور: مقامی لوگ کیا کہتے ہیں؟

حال ہی میں ریٹائرڈ ہونے والے ایک کرنل ، جو وزیرستان میں طالبان کے خلاف لڑ چکے ہیں، نے  اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو اپنی رائے دیتے ہوئے کہا، ’’ہم طالبان اور دہشت گردوں کے خلاف کیوں نہیں لڑیں گے۔ طالبان نے ہمارے سپاہیوں اور افسران کو شہید کر کے ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی ہے۔ ہمارے جوانوں کے گلے کاٹے ہیں۔ ہم نے ہزاروں کی تعداد میں اپنے ساتھی گنوائیں ہیں، تو اس جنگ میں ہم ان کے خلاف کیوں نہیں لڑیں گے۔ میرے خیال میں نئے افسران اور جوانوں میں کوئی بھی ایسا نہیں جسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے کوئی ابہام ہو۔‘‘

لیکن کئی تجزیہ نگار اس خوشگوار منظر نامے سے متفق نظر نہیں آتے۔ معروف تجزیہ نگار ڈاکڑ توصیف احمد خان نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’دیکھیں جی پورے معاشرے میں ہی مذہبی رحجان اور بعض معاملات میں مذہبی جنونیت بڑھی ہے۔ آرمی میں بھی لوگ اسی معاشرے سے جاتے ہیں۔ لہذا وہاں بھی اس طرح کے لوگ ہیں۔ جب تک آپ پاکستانی معاشرے کو سیکولر نہیں بنائیں گے، اس وقت تک مذہبی رحجانات کے اثرات تمام اداروں پر ہوں گے، بشمول آرمی اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے کو سیکولر بنانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود اسٹیبلشمنٹ ہے۔‘‘

رابن رافیل کے بیان پر سوشل میڈیا میں بھی بہت بحث ہورہی ہے۔ ٹوئڑ پر ایک صارف نے رافیل پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’میں سوچ رہا تھا کہ یہ کون عورت ہے جو بکواس کر رہی ہے، پھر میں نے رابن رافیل کا نام پڑھا۔‘‘ ایک اور صارف نے لکھا، ’’رابن رافیل آئی ایس آئی کے پیرول پر ہے۔‘‘ ایک اور ٹوئٹر صارف نے لکھا، ’’رابن رافیل پاکستان کو شک کا فائدہ دے رہی تھیں لیکن پینل میں بیٹھے دو دوسرے افراد ایسا نہیں کر رہے تھے۔‘‘ ایک صارف نے رابن رافیل کے بیان پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’حیرت ہے کہ رابن رافیل مسئلے کے حل کے لیے طالبان سے بات چیت کا پرچار کر رہی ہیں۔‘‘

پاکستان میں اس حوالے سے ابھی تک سرکاری سطح  پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم دفترِ خارجہ کے ایک سینئیر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہمیں ابھی تک واشنگٹن میں موجود پاکستانی مشن سے اس طرح کی کوئی خبر نہیں آئی ہے۔ میں میڈیا کی خبر پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔ جب ہمارے مشن سے خبر آئے گی ۔ میں پھر پڑھنے کے بعد اس پر تبصرہ کروں گا۔‘‘