1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’راجستھان میں بہت سے بچے اسکول کیوں نہیں جاتے‘

عاطف توقیر26 اپریل 2016

کچی زمین پر سات خواتین اور ایک مرد ایک دائرے میں بیٹھے ہیں اور ان کے ہم راہ تین سماجی کارکن ہیں۔ ان میں سے ایک ان افراد سے پوچھتا ہے، آپ کے بچے روزانہ اسکول کیوں نہیں جاتے؟

https://p.dw.com/p/1Icut
Kinder in Rajasthan Prostitution Nirvanavan Foundation
تصویر: Lauren Farrow

پہلے تو جواب میں وہ خاموش رہتے ہیں، مگر پھر ان میں سے ایک خاتون بول اٹھتی ہے، ’’بچے مسلسل کچھ نہ کچھ مانگتے رہتے ہیں۔ پنسلیں، کاپیاں اور اگر ہم انہیں خرید کر نہ دیں، تو وہ اسکول نہیں جاتے۔‘‘

دائرے میں بیٹھے دیگر افراد کچھ کھسر پھسر کرتے ہیں اور پھر ایک اور خاتون گویا ہوتی ہے، ’’گھر میں کرنے کو بہت سا کام ہوتا ہے۔ اس لیے بچوں کو اسکول کے لیے دیر ہو جاتی ہے یا وہ اپنا ہوم ورک نہیں کر پاتے۔ مگر ظاہر ہے گھر کا کام بھی ہوتا ہے۔ وہ کون کرے گا؟‘‘

ایک ایک کر کے اس گروپ میں موجود سبھی افراد بچوں کے اسکول نہ جانے کی وجوہات بتاتے ہیں۔ یہ وجوہات سماجی کارکن ایک دیوار پر آویزاں چارٹ پر لکھتے چلے جاتے ہیں۔ پھر ایک سماجی کارکن کہتا ہے، ’چلیے اب ان مسائل کا ممکنہ حل سوچتے ہیں۔‘‘

Nirvanavan Foundation Kinder Prostitution Rajasthan
راجستھان بچوں کی تعلیم کے اعتبار سے پیچھے ہےتصویر: Lauren Farrow

راجستھان میں بچوں کی اسکولوں میں حاضری کا مسئلہ بھارت بھر کے دیہی علاقوں کا مسئلہ ہے۔ بھارت میں نچلی ذات کی برادریوں میں بچے اس فہرست میں نمایاں ہیں اور ان بچوں کو گھروں سے بھی تعلیم کے لیے نہ زیادہ حوصلہ افزائی ملتی ہے اور نہ ہی مدد۔

راجستھان میں تعلیم مفت ہے، تاہم پھر بھی والدین کو بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں کچھ نہ کچھ اخراجات برداشت کرنا ہوتے ہیں، جیسے یونیفارم اور اسٹیشنری وغیرہ کا خرچہ۔

پھر اپنے گھر کے کام کرنے والے بچوں کو اسکول بھیجنے پر والدین پر کام کا بوجھ بھی بڑھ جاتا ہے، اس لیے وہ بھی تعلیم پر زور دینے کی بجائے ان بچوں سے گھروں کے کام میں معاونت ہی طلب کرنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ بچے کسی قدر بڑے ہوتے ہیں، تو انہیں کسی نہ کسی کام میں ڈال کر گھریلو آمدنی میں بھی اضافے کی کوشش کی جاتی ہے اور یوں ان بچوں کے لیے تعلیم کے دروازے رفتہ رفتہ مکمل طور پر بند ہو جاتے ہیں۔ یہ بچے آخرکار تعمیراتی جگہوں یا کھیتوں میں کام کرتے ملتے ہیں۔

راجستھان کا ضلع دونگرپور ریاست کے سب سے غریب اضلاع میں سے ایک ہے، جہاں سن 2011 کے اعداد و شمار کے مطابق خواندگی کی شرح صرف 58 فیصد ہے۔ بھارت میں مجموعی طور پر خواندگی کی شرح 74 فیصد ہے جب کہ راجستھان میں ریاستی سطح پر یہ شرح 66 فیصد ہے۔

سسر پور میں ریاستی نگرانی میں چلنے والے ایک پرائمری اسکول کی استانی رُکمنی روات کہتی ہیں، ’’والدین سمجھتے ہی نہیں کہ تعلیم انتہائی ضروری ہے۔ یہ اپنے بچوں کو کٹائی کے موسم میں اسکولوں سے اٹھا لیتے ہیں یا گھر میں کوئی کام ہو تو بھی انہیں اسکول نہیں بھیجتے۔‘‘

انہوں نے مزید بتایا، ’’جب ان بچوں کو تواتر سے اسکول سے اٹھایا جاتا ہے، تو وہ دیگر بچوں کے مقابلے میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور ان کی تعلیم میں دلچسپی رفتہ رفتہ کم ہونے لگتی ہے۔ پھر ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ پڑھائی کریں اور اس طرح وہ اسکول آنا مکمل طور پر بند کر دیتے ہیں۔‘‘

ظاہر ہے، ان مسائل کا حل مختلف غیرسرکاری ٹیمیں مختلف مقامات پر جا کر والدین کو یہی بتا رہی ہیں کہ ان بچوں کو ہوم ورک کے لیے وقت دیا جائے اور تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بچوں کے مستقبل کی خاطر تعلیم کے لیے ان کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔