1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ربانی قتل کیس: افغان وفد کی اسلام آباد میں پاکستانی حکام سے ملاقاتیں

24 نومبر 2011

افغانستان کے سابق صدراور اعلیٰ امن کونسل کے سربراہ پروفیسر برہان الدین ربانی کی خودکش حملے میں ہلاکت کی تحقیقات کے لیے اسلام آباد کا دورہ کرنے والے افغان وفد نے پاکستانی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔

https://p.dw.com/p/13Gf8
پروفیسر برہان الدین ربانیتصویر: picture alliance / dpa

اس وفد کے ارکان میں افغانستان کی وزارت دفاع و داخلہ اور انٹیلیجنس کے نو افراد شامل ہیں۔ افغان وفد کی مصروفیات کے بارے میں سرکاری طور پر کچھ نہیں بتایا جا رہا۔

تاہم پاکستان کے دورے پرآئی ہوئی برطانوی وزیر داخلہ تھریسہ مے کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں افغان وفد کے دورے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر وزیرداخلہ رحمان ملک نے کہا: ’’پاکستان کا دورہ کرنے والے افغان وفد کے بارے میں اتنا کہنا چاہوں گا کہ وہ کل ہی پہنچے ہیں اور ہمارے لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ میری ان سے آج شام کو ملاقات ہو گی۔‘‘

رحمان ملک نے تھریسہ مے کی افغان وفد کے ساتھ ملاقات کے بارے میں پوچھے جانے والے سوال کا نفی میں جواب دیا۔
خیال رہے کہ سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کابل میں اپنی رہائش گاہ پر ایک خودکش حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ ان کی ہلاکت کے بعد افغان حکام نے پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ اس قتل کی منصوبہ بندی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہوئی اور حملہ آور کا تعلق بھی پاکستان سے ہی تھا۔ لیکن پاکستان اس حملے سے کسی بھی قسم کے تعلق کی تردید کرتا آیا ہے۔

افغان حکام نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ پاکستانی حکام اس قتل کی تحقیقات کے لیے ان سے تعاون نہیں کر رہے۔ تاہم پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے دورہ کابل کے موقع پر ربانی کے قتل کی تحقیقات کے لیے ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا تھا۔
صوبہ خیبر پختونخواہ میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) اسد منیرکا کہنا ہے کہ افغان وفد کو پاکستان پر لگائے گئے الزامات کے ٹھوس شواہد پیش کرنے ہوں گے ورنہ ان کے اس دورے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔

Pakistan Innenminister Rehman Malik
پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملکتصویر: Abdul Sabooh

انہوں نے کہا: ’’اگر ان کے پاس ٹیکنیکل انفارمیشن ہیں جیسے کوئی بات چیت کی ریکارڈنگ ہو وہ اگر سامنے لا سکیں کیونکہ اس میں ٹیلیفون نمبر آ جاتا ہے کہ فلاں آدمی نے فلاں جگہ سے بات کی ، ہدایات دیں اور وہ آدمی بم لے کر آیا وغیرہ ۔ تو یہ (افغان وفد) پاکستانی حکام کے ساتھ بات کریں گے اور اس بات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا کہ اس کیس کی تفتیش کو کیسے آگے بڑھائیں۔ میرے خیال میں ان کا اس سے زیادہ کوئی کردار نہیں ہوگا۔‘‘
دریں اثناء تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان وفدکی پاکستان سے واپسی پر یہ بات واضح ہوسکے گی کہ اسلام آباد حکومت نے برہان الدین ربانی کے قتل کی تحقیقات کے لئے ان کے ساتھ کتنا تعاون کیا اور کیا افغان حکومت ربانی کے قتل کے حوالے سے لگائے گئے الزامات میں کسی نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب ہوسکے گی یا نہیں۔


رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں