1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روانڈا میں توتسیوں کے قتل عام کے پندرہ سال مکمل

7 اپریل 2009

آج سے پبندرہ سال قبل روانڈا میں توتسی آبادی کا ہولناک قتل عامل ہوا تھا اگرچہ وہاں اقوام متحدہ کی فوج تعیینات تھی لیکن وہ خاموش تماشائی بنی رہی کیونکہ اسے مداخلت کی اجازت نہیں تھی۔

https://p.dw.com/p/HRxa
اس قتل عام میں ہزاروں افراد کو قتل کر دیا گیا تھاتصویر: AP

ماہرین کا خیال ہے کہ اس قتل عام کو روکا یا کم از کم بہت سے افراد کو بچایا جا سکتا تھا۔

پندرہ سال قبل روانڈا میں ہونے والےقتل عام سے دو ماہ پہلے روانڈا میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی نے اقوام متحدہ کو ایک ٹیلی گرام روانہ کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ہم یہاں مسلسل زیادہ پرتشدد مظاہرے دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں کہ مسلح گروپ اپنے اسلحے کے ذخائر پر کر رہے ہیں۔

روانڈا میں سن انیس سو ترانوے کے آخرسے اقوام متحدہ کی امن فوج تعینات تھی اس کے فوجی اقوام متحدہ کو خبر دے چکے تھے کہ ہوتو انتہا پسندوں کو اسلحہ دیا جا رہا تھا اور ملیشیا کو خفیہ تربیت دی جا رہی تھی۔ ایک برطنوی مصنفہ Lina Melvern جنہوں نے اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی ہے کہا:’’بیلجیئم کی حکومت کو اس خطرے کا علم تھا۔ اس نے امریکہ اور برطانیہ کے اقوام متحدہ میں سفارت کاروں سے درخواست کی کہ رونڈا میں امن فوج میں اضافہ کر دیا جائے لیکن امریکہ اور برطانیہ نے پیسے کی کمی کی وجہ سے اس سے انکار کیا۔ یہ قتل عام کا منصوبہ بنانے والوں کے لئے ایک خطرنات اشارہ تھا وہ سمجھ گئے کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں اور دنیا کچھ بھی نہیں کرے گی۔‘‘

Wahlen in Ruanda
روانڈا میں بڑی تعداد میں مردوں اور لڑکوں کا ہلاک کیا گیا تھاتصویر: AP

Melvern نے بین الاقوامی تعزیراتی عدلات میں روانڈا کے کیس میں ایک ماہر کی حیثیت سے اپنا تجربہ پیش کیا جب سات اپریل کو رونڈا میں قتل عام شروع ہوا اور توتسی آبادی کو بتے رحمی سے قتل کیا جانے لگا تو اقوام متحدہ کی امن فوج خاموش تماشائی بنی رہی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے وزیر اعظم کو اغواء کر کے قتل کیا گیا۔ توتسیوں نے بیلجیئم کی امن فوج کی بٹالین کے اڈے میں پناہپ حاصل کی لیکن جب بیلجیئم کے فوجی قتل ہونے لگے تو یہ بٹالین وہان سے نکل گئی۔ وہاں اکیلے رہ جانے والے توتسیوں کو کچھ دیر بعد ہوتو ملیشیا نے قتل کر دیا۔ تو اقوام متحدہ اور نہ ہی کسی ملک نے انفرادی طور پر اس بارے میں کچھ کیا۔

دنیا سابق یوگوسلاویہ کے قصے میں الجھی ہوئی تھی۔ ذرائع ابلاغ کے لئے بھی روانڈا کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔ اقوام متحدہ کی اس فوج کے کینیڈا کے کمانڈر نے بار بار اصرار کیا کہ فوجیوں کو یہ قتل عام روکنا ہو گا۔ لیکن انہیں اس کی اجازت نہیں دی گئی۔

بعد میں اقوام متھدہ کے سیکریٹری جنرل بننے والے کوفی عنان اس وقت اقوام متحدہ کے امن مشن کے ہیڈ کوارٹر میں اس شعبے کے انچارج تھے۔ صرف انہوں نے ہی بعد میں اپنی ذمہ داری تسلیم کرتے ہوئے کہا :’’ ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہئیے کہ ہم روانڈا میں آٹھ لاکھ بے قصور مردوں عورتوں اور بچوں کی حفاظت کرنے میں مشترکہ طور پر ناکام رہے ہیں۔ ہمیں اس کی ذمہ داری قبول کرنا ہو گی کہ ہم نے اس قتل عام کو روکنے کے لئے مناسب اقدام نہیں کئے۔‘‘روانڈا کے قتل عام میں مردوں اور لڑکوں کو خاص طور سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ آج روانڈا کی پارلیمان میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔