1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روایتی کچن، فائیو اسٹار ہوٹلوں کی ٹکر پر

11 دسمبر 2011

فرانس کا شہر کَن صرف فلمی میلے کی وجہ سے بھی مشہور نہیں ہے بلکہ یہ شہر پرتعیش سیاحت کے بین الاقوامی میلے کا میزبان بھی ہے۔ اس فیسٹول میں دادی جان یا نانی امی کے کھانوں یعنی گرینڈ مدر کچن میں شرکاء نے خاص دلچسپی لی۔

https://p.dw.com/p/13QkS
دادی جان یا نانی امی کے کھانے یعنی گرینڈ مدر کچن میں لوگوں کی دلچسپی بڑھ رہی ہےتصویر: DW

کن شہر میں پرتعیش سیاحت کی بین الاقوامی نمائش میں اس مرتبہ ایک بالکل ہی نیا انداز دیکھنےکو ملا۔ جہاں بڑے بڑے ریستورانوں کےکھانوں کو پسند کیا گیا وہیں خوش خوراک سیاحوں نے روایتی انداز میں یعنی دادی اور نانی کے گھریلو اندازمیں پکائے ہوئے روایتی کھانوں میں بھی خاصی دلچسپی لی۔ اس فیسٹول میں دنیا بھر کی اشرافیہ کے ساتھ ساتھ لگژری ہوٹل اور ریستورانوں کے مالکان نے بھی شرکت کی۔

ماہرین کے رائے میں روایتی اور مقامی لذت کام ودہن کے اس رجحان میں بہت تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سیاحتی شعبے سے وابستہ کیمبل کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی جلد ہی امیر افراد کے ایک چھوٹے سے گروپ کے ساتھ اٹلی کا دورہ کرنے والی ہیں۔ اس دوران سیاح چاکلیٹ کی ایک قسم، جس میں ٹروفل استعمال کیا جاتا ہے، اس بارے میں آگاہی حاصل کریں گے۔ ’’سیاح چاہتے ہیں کہ وہ دیکھیں کہ ٹروفل کہاں اگتی ہے، کس طرح اگتی ہے اور اسے کیسے پکایا جاتا ہے‘‘۔ یہ امر اہم ہے کہ ٹروفل ایک فنگس ہے اور یورپی ڈشز کی تیاری میں اسے کچن کا ڈائمنڈ کہا جاتا ہے۔

گزشتہ پانچ برسوں سے سیاحوں کی روایتی اور بائیو فوڈز میں دلچسپی بڑھی ہے۔ ٹیلی وژن پر دکھائے جانے والے کوکنگ شو کی وجہ سے لوگ اس جانب متعارف ہوئے ہیں۔ بہت سے شوز میں دکھایا جاتا ہے کہ کس طرح پرانے وقتوں میں کھانے تیار کیے جاتے تھے اور بہت سے شوز میں کوئی عمر رسیدہ خاتون ہی کھانے کے ٹوٹکے بتا رہی ہوتی ہیں۔ اس طرح بہت سے بھولے بسرے طعام دوبارہ سے زندہ ہو گئے ہیں۔

Regisseur Ferzan Ozpetek Mine Vaganti
اس طرح کے روایتی انداز کے ہوٹلوں کا مطلب اشرافیہ کو وہ تجربہ دینا ہے، جو وہ خود کبھی حاصل نہیں کرسکتےتصویر: Internationale Filmfestspiele Berlindrucken

اس کی ایک مثال موریشس کی ہے، جہاں شانتی موریس نیرا نامی سیاحتی مقام پر ’گرینڈ مدر کچن‘ کے نام سے ایک ریستوران ہے۔ اس ریستوران میں صرف روایتی کھانے ہی دستیاب ہیں، جنہیں گرینڈ مدر خود ہی پکاتی ہیں اور انہی کی موجودگی کی وجہ سے یہاں رش رہتا ہے۔ ’گرینڈ مدر کچن‘ کی سادگی کی وجہ سے بھی سیاح یہاں کچھے چلے آتے ہیں۔ نیرا کے ایک ہوٹل کے چیف ایگزیکیٹو ایم پی ایس پورے کے بقول اس طرح کے روایتی انداز کے ہوٹلوں کا مطلب اشرافیہ کو وہ تجربہ دینا ہے، جو وہ خود کبھی حاصل نہیں کرسکتے۔ انہوں نے بتایا کہ امراء زیادہ تر بند کمیونٹی میں رہتے ہیں اور بہت ہی محدود لوگوں سے ان کا ملنا جلنا ہوتا ہے۔

اس بڑھتے ہوئے رجحان سے صرف ہوٹلوں اور ریستورانوں کے مالکان ہی فائدہ نہیں اٹھا رہے بلکہ اٹلی کے اونچے طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین سے لے کر چین کی گھریلوخواتین بھی انفرادی سطح پر ایسے ریستوران کھول رہی ہیں، جن میں روایتی اور مقامی کھانے پکانے والوں کو رکھا جا رہا ہے۔

جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ایک لگژری ٹریول کمپنی کے سیلز اور مارکیٹنگ کے شعبے کے سربراہ پاؤل بروننگ کہتے ہیں کہ سیاحوں کی کھانے کے اجزاء ترکیبی میں بھی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ مقامی کھانوں کوگھریلو انداز میں کس طرح پکایا جاتا ہے۔ ساتھ ہی یورپ میں اس طرح کے بھی کئی ریستوران کھل چکے ہیں، جہاں کک مہمانوں کوکھانے سے منسلک کوئی کہانی بھی سناتے ہیں۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں