1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس نے مزید امن دستے ابخازیہ روانہ کر دیے، جورجیا اور نیٹو کا شدید ردِ عمل

1 مئی 2008

روس نے جورجیا سے علیحدہ ہونے والے خطّے ابخا زیہ میںمزید امن دستے روانہ کر دیے ہیں۔ جورجیا نے روس کے اس اقدام کو کھلی جارحیت قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/Ds0V
تصویر: AP

چند روز قبل روس کے اس اعلان کے بعد کہ وہ جورجیا سے علیحدہ ہونے والے شورش زدہ علاقوں میں مزید امن دستے روانہ کر رہا ہے تو جورجیا اور نیٹو نے اس اقدام پر سخت تنقید کی تھی۔ جورجیا کے مطابق امن دستوں میں اضافے کی آڑ میں روس جورجیا پر دباﺅ ڈالنا چاہتا ہے۔ نیٹو اور یورپی یونین نے بھی روس کو خبر دار کیا تھا کہ اس طرح کا کوئی بھی اقدام خطّے میں کشیدگی کا باعث بنے گا۔

جورجیا نے طبلیسی میں روسی سفیر کو طلب کر کے سرکاری طور پر احتجاج بھی کیا۔ مگر جورجیا اور بین الاقوامی برادری کے اس ردِ عمل کے باوجود روس نے مزید امن دستے ابخازیہ روانہ کر دیے ہیں ۔ روس کا کہنا ہے کہ یہ امن دستے ابھی بھی انیس سو چورانوے میں اقوامِ متحدہ کے زریعے روس اور جورجیا کے درمیان کروائے گئے جنگ بندی کے معاہدے کے مطابق تین ہزار سے زیادہ نہیں ہیں۔گو کہ ماسکو نے روانہ کیے گئے مزید امن دستوں کی تعداد نہیں بتائی ہے مگر زرائع کے مطابق یہ تعداد بارہ سو کے لگ بھگ ہے۔

جورجئین افراد کی نقل مکانی

انیس سو نوّے کی دہائی کے اوائل میں ابخازیہ کی ابخاز اقلیت نے جنگ کا آغاز کرکے علاقے سے تقریباً ڈھائی لاکھ جورجیائی افراد کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا تھا۔ اس وقت ابخازیہ میں قریباً دو لاکھ افراد آباد ہیں۔ ابخازیہ کو روس کی زبر دست حمایت حاصل ہے ، اس حد تک کے روس نے اس کے اسّی فیصد شہریوں کو روسی پاسپورٹ دیے ہوئے ہیں۔ اس کے با وجود ابخازیہ کو روس سمیت کسی بھی ملک نے آزاد اور خود مختار ریاست تسلیم نہیں کیا ہے۔جورجیا روس پر الزام عائد کرتا ہے کہ روس ابخازیہ اور جنوبی اوسیٹیا کو روس میں شامل کرنا چاہتا ہے۔

Russland Militärmanöver
تصویر: AP

روسی امن دستوں کا زبر دست خیر مقدم

روسی زرائع ابلاغ کے مطابق ابخازیہ کے شہریوں نے مزید روسی امن دستوں کا زبر دست خیر مقدم کیا ہے۔ ابخازیہ کے بعض شہریوں کی رائے میں جورجئین افواج کھلے عام ابخازیہ میں گشت کر تی رہتی ہیں اور روس جیسے طاقت ور ملک کی جانب سے بھیجے گئے امن دستے ان کا بہتر تحفظ کر سکیں گے۔

دوسری جانب امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک بیان کے مطابق امریکہ کو روس کے اس اقدام پر تشویش تو ہے مگر اس سلسلے میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے روسی صدر ولادی مر پوتین سے کوئی رابطہ یا احتجاج نہیں کیا ہے۔