روس کیوں انٹرنیشنل کریمینل کورٹ سے دستبردار ہونا چاہتا ہے؟
19 نومبر 2016ایک بڑی تعداد میں یوکرائنی آبادی کا خیال تھا کہ دی ہیگ میں واقع بین الاقوامی فوجداری عدالت کا کٹہرا روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا منتظر ہے۔ یہ خیال تب سے ہے جب روسی صدر نے یوکرائن کے علاقے کریمیا کو روسی فیڈریشن کا حصہ بنایا تھا۔ سن 2014 میں کریمیا کو روس میں ضم کرنے کے بعد سے یوکرائن کے سینکڑوں لوگوں نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے نام شکایات ارسال کی تھیں۔
ان افراد کو ایک کمزور سا یقین تھا کہ ایک دن روسی صدر بین الاقوامی فوجداری کی گرفت میں آ سکتے ہیں لیکن اب یہ سب خواب ہو کر رہ گیا ہے۔ ماسکو حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ انٹرنیشنل فوجداری عالت کی رکنیت کو خیرباد کہنے لگا ہے۔ صدر پوٹن نے اپنی وزارت خارجہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو اِس حکومتی فیصلے سے مطلع کر دے۔
ہیمبرگ یونیورسٹی کے مشرقی یورپی قوانین کے سابق سینیئر محقق اوٹو لاخٹرہانٹ کا کہنا ہے کہ روسی فیصلہ اُسی تناظر میں ہے، جس سمت میں اِسے جانا چاہیے تھا۔ لاخٹرہانٹ کا مزید کہنا ہے کہ روس کی دستوری عدالت نے سن 2015 میں اپنی پوزیشن واضح کی تھی کہ وہ یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے صرف اُن فیصلوں کا احترام کرے گی جو روس کے قوانین سے متصادم نہیں ہوں گے۔ سینیئر ریسرچر کے مطابق اِس عدالتی نظیر کے بعد روس کئی بین الاقوامی فیصلوں کی نفی کر چکا ہے۔ لاخٹرہانٹ نے واضح کیا کہ اگر کریمیا کا معاملہ بین الاقوامی عدالت میں پیش ہو جاتا تو یقینی طور پر روس کا مجرمانہ کردار بھی سامنے آ جاتا۔
جرمن شہر بوخم میں واقع روہر یونیورسٹی کے ادارہ برائے امن اور مسلح تنازعات (IFHV) کے سربراہ تھیل بُؤرگر کا کہنا ہے کہ روس نے ماضی میں کبھی کسی بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کا احترام نہیں کیا اور اب بین الاقوامی فوجداری عدالت کی رکنیت ختم کرنے کا معاملہ بھی قانونی نہیں بلکہ یہ سیاسی بنیاد پر طے کیا گیا ہے۔ دوسری جانب روس کا خیال ہے کہ دی ہیگ میں قائم فوجداری عدالت قوتِ نافذہ سے محروم اور جانبدار ہے۔
انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کو سن 1998 میں اطالوی دارالحکومت روم منعقدہ اجلاس میں قائم کیا گیا تھا۔ روس روم اجلاس کا دستخط کنندہ ہے لیکن بعد میں اُس نے اِس عدالت کو تسلیم کرنے کی توثیق نہیں کی تھی۔