روس کے لیے کوئی مستقل فوجی اڈہ نہیں ہے، ایران
17 اگست 2016خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اب تک ایسی کوئی مثال نہیں ہے کہ ایران نے روسی جنگی طیاروں کو اجازت دی ہو کہ وہ اس کی سرزمین سے اُڑ کر شام میں اپنے اہداف پر بمباری کریں، تاہم اس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ شامی صدر بشارالاسد کے سب سے بڑے حامی ان دونوں ممالک کے درمیان تعاون مزید گہرا ہو رہا ہے۔
ادھر شام میں آج بدھ 17 اگست کو باغی گروپوں کی طرف سے حلب میں حکومتی کنٹرول والے علاقے میں راکٹ فائر کرنے کے نتیجے میں سات سویلین ہلاک جبکہ نو دیگر زخمی ہو گئے۔ یہ بات شام کی سرکاری نیوز ایجنسی کی طرف سے بتائی گئی۔ نیوز ایجنسی SANA کے مطابق راکٹوں کا نشانہ حلب کا علاقہ صلاح الدین بنا۔ شام کا شمالی شہر حلب دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ اس کے مغربی حصے حکومتی فورسز کے کنٹرول میں ہیں جبکہ مشرقی حصہ باغیوں کے قبضے میں ہے۔
حلب خانہ جنگی سے قبل شام کا سب سے بڑا شہر اور تجارتی مرکز تھا مگر اب یہ شہر اس خانہ جنگی کا مرکزی مقام بن چکا ہے۔ منگل 16 اگست کو باغیوں کے زیر قبضہ مشرقی حصے میں کیے جانے والے فضائی حملوں میں قریب 20 سویلین ہلاک ہو گئے تھے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے ایرانی پارلیمان کے اسپیکر علی لاریجانی کی طرف سے آج بدھ کے روز سامنے آنے والے بیان کو ملک کے اندر پیدا ہونے والے تحفظات کو کم کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ 1979ء میں اسلامی انقلاب کے بعد توثیق کیا جانے والا ایرانی آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی بھی غیر ملکی فوج کو ملک کے اندر کوئی اڈہ فراہم کیا جائے۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی IRNA کی طرف سے رپورٹ کیے جانے والے بیان میں لاریجانی نے منگل کے روز روس کے فضائی حملوں کے بارے میں براہ راست تو بات نہیں کی تاہم انہوں نے یہ ضرور کہا کہ ایران نے ’’روس کے ساتھ تعاون کیا تھا، کیونکہ وہ ہمارا علاقائی اتحادی ہے، خاص طور پر شام کے معاملے پر۔‘‘ لاریجانی کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا، ’’ہمارا روس کے ساتھ اچھا اشتراک ہے اور ہم یہ بات علی الاعلان کہتے ہیں۔‘‘
روسی وزارت دفاع کی طرف سے منگل 16 اگست کو اعلان کیا گیا تھا کہ اس کے طیاروں نے ایرانی شہر ہمدان سے اُڑ کر شام کے تین شمالی اور مشرقی صوبوں میں اہداف کو نشانہ بنایا۔