1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روشنی سے تیز رفتار ذرے کی دریافت درست نہیں، نئی تحقیق

24 نومبر 2011

اختتام ہفتہ پرسائنسدانوں کی ایک ٹیم نے اعلان کیا تھا کہ روشنی سے تیز رفتار ذرے کی دریافت سے متعلق دہرائے گئے تجربے میں سابق نتیجہ درست ثابت ہوا، تاہم اسی تجربے پر کام کرنے والی ایک اور ٹیم نے اسے رد کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/13Ge2
تصویر: Fotolia/DeVIce

سائنسدانوں نے رواں برس ستمبر میں دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ایک تجربے کے دوران ایک ایسا ’سب اٹامک‘ ذرہ دریافت کیا ہے جو روشنی سے بھی زیادہ تیز رفتار سے سفر کرتا ہے۔ اس سب اٹامک ذرے کو نیوٹرینو کہا جاتا ہے۔ تاہم بین الاقوامی سطح پر اس نتیجے کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا گیا کیونکہ ایسی صورت میں نہ صرف معروف سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کا یہ نظریہ غلط ثابت ہوجاتا ہے کہ کائنات میں کوئی بھی چیز روشنی سے زیادہ تیز رفتار سے سفر نہیں کر سکتی، بلکہ جدید فزکس کے ایسے بہت سے دیگر قوانین بھی خطرے میں پڑ جائیں گے جن کی بنیاد آئن سٹائن کا یہی نظریہ ہے۔

یورپی ایٹمی ریسرچ سنٹر CERN کے ماہرین نے اپنی دریافت سے متعلق نتائج ثابت کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے یہ تجربہ دہرایا اور ہفتہ 19 نومبر کو اعلان کیا کہ روشنی سے تیز رفتار ذرے کی دریافت سے متعلق ان کے نتائج درست ثابت ہوگئے ہیں۔ اس تجربے کو OPERA ایکسپیریمنٹ کا نام دیا گیا ہے۔ اس تجربے کے لیے سوئٹزر لینڈ کی سرحد پر واقع سیرن سے نیوٹرینوز کی ایک بیم روم میں واقع گران ساسو لیبارٹری بھیجی گئی۔ سائنسدانوں کے مطابق انہیں گران ساسو میں موصول ہونے والے نیوٹرینوز روشنی کی رفتار کے مقابلے میں 60 نینوسیکنڈز قبل پہنچے۔

یورپی ایٹمی ریسرچ سنٹر CERN کے ماہرین نے اپنی دریافت سے متعلق نتائج ثابت کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے یہ تجربہ دہرایا
یورپی ایٹمی ریسرچ سنٹر CERN کے ماہرین نے اپنی دریافت سے متعلق نتائج ثابت کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے یہ تجربہ دہرایاتصویر: picture alliance/dpa

تاہم اسی حوالے سے گران ساسو میں ہی ایک اور تجربہ بھی جاری ہے جسے ICARUS کا نام دیا گیا ہے۔ پہاڑیوں کے نیچے گہرائی میں ہونے والا یہ تجربہ اٹلی کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف فزکس کی طرف کیا جا رہا ہے۔ اس تجربے سے منسلک سائنسدانوں کے مطابق سیرن سے بھیجے گئے نیوٹرینوز کی توانائی کی پیمائش اوپرا تجربے کے نتائج کے برعکس ہے۔

ہفتہ 19 نومبر کو ایک ویب سائٹ پر چھپنے والی رپورٹ میں ICARUS کی ٹیم نے کہا ہے کہ ان کا مشاہدہ OPERA تجربے کے سپر لومینل یعنی روشنی سے تیز رفتار ہونے کے نتیجےکے برعکس ہے۔

ان سائنسدانوں نے اپنے اس مشاہدے کی بنیاد حال ہی میں امریکہ کے دو ماہرین طبیعات کی طرف سے پیش کیے جانے والے ایک نظریے کو بنایا ہے، جس کے مطابق سیرن سے بھیجے جانے والے نیوٹرینوز اگر روشنی سے ذرا سی بھی زیادہ رفتار سے سفر کرتے تو ان کی زیادہ تر انرجی ختم ہو چکی ہوتی۔

کی ٹیم نے کہا ہے کہ ان کا مشاہدہ OPERA تجربے کے سپر لومینل یعنی روشنی سے تیز رفتار ہونے کے نتیجےکے برعکس ہے
کی ٹیم نے کہا ہے کہ ان کا مشاہدہ OPERA تجربے کے سپر لومینل یعنی روشنی سے تیز رفتار ہونے کے نتیجےکے برعکس ہےتصویر: picture alliance/dpa

لیکن اس کے برعکس ICARUS تجربے سے منسلک سائنسدانوں کے مطابق انہوں نے سیرن سے چھوڑے گئے نیوٹرینوز کی جس بیم کا تجزیہ کیا، اس کی توانائی بالکل اسی طرح ہے جیسی کہ صرف روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کی صورت میں ہونی چاہیے تھی۔

ماہر طبیعات ٹوماسو ڈورِیگو سیرن کے علاوہ امریکہ میں شکاگو کے نواح میں قائم فرمی لیب سے بھی وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ICARUS ٹیم کا مشاہدہ بہت سادہ اور فیصلے کے حوالے سے بالکل درست ہے۔

دوسری طرف روشنی سے تیز رفتار ذرے کے بارے میں شواہد جاننے کے لیے دنیا کی بعض دیگر تجربہ گاہوں میں بھی OPERA تجربے کو دہرانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ان میں شکاگو کی فرمی لیب اور جاپان کی KEK لیبارٹری بھی شامل ہیں۔ اگر ان تجربہ گاہوں میں بھی وہی نتائج سامنے آئے، تو پھر روشنی سے تیز رفتار ذرے کی دریافت تسلیم کر لی جائے گی۔

رپورٹ: افسر اعوان

ادارت: مقبول ملک