1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روم کانفرنس اور مشرق وسطی کی صورتحال

26 جولائی 2006

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے حزب اللہ اور اسرائیل دونوں پر اپنے حملے روک دینے کے لئے زور دیا ہے اور سلامتی کونسل سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری جنگ بندی کے لئے اقدام کرے ۔

https://p.dw.com/p/DYKg
لبنانی فائر بریگیڈ کا عملہ اسرائیلی حملے کے نتیجے میں بھڑکنے والی آگ بجھانے کی کوشش میں
لبنانی فائر بریگیڈ کا عملہ اسرائیلی حملے کے نتیجے میں بھڑکنے والی آگ بجھانے کی کوشش میںتصویر: AP

آج اٹلی کے دارالحکومت روم میں لبنان کے بحران پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین جاری خوفناک لڑائی کو رکوانے میں کوئی اہم کردار ادا کیے بغیر اپنے اختتام کوپہنچ گئی جس کے بعد عرب ممالک اور اقوام متحدہ کے نمائندوں کی آخری امیدیں بھی ٹوٹ گئیں۔

البتہ آج کی کانفرنس میںامریکہ ، مشرق وسطی اور یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ نے اس بات پر اتفاق کر لیا ہے کہ لبنان اور اسرائیل کی سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے اقوام متحدہ کی قیادت میں بین الاقوامی فوج کا وجود ضروری ہے۔

کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلامیے میںیہ عہد بھی کیا گیا ہے کہ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان فوری طور پر جنگ بندکرانے کئے لیے کوشش کی جائے گی لیکن اس فائر بندی کو دیر پا ، دائمی اور مستحکم ہونا چاہیے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے حزب اللہ اور اسرائیل دونوں پر اپنے حملے روک دینے کے لئے زور دیا ہے اور سلامتی کونسل سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری جنگ بندی کے لئے اقدام کرے۔ کوفی عنان نے کانفرنس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ میں نے حزب اللہ سے اپیل کی ہے کہ وہ جان بوجھ کر اسرائیلی آبادی کو نشانہ بنانے کا سلسلہ بند کر ے اور اسرائیل پر بھی زور دیا ہے کہ وہ لبنان پر اپنی بمباری زمینی حملے اور اپنے محاصرے کو ختم کرے۔

ادھر اسرائیل کے وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان سے ٹیلی فو ن پر لبنان میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں اقوام متحدہ کے چار مبصرین کی ہلاکت پر گہرے دکھ کااظہار کیا ہے۔منگل کے روز اسرائیلی فوج کی طرف سے اقوام متحدہ کی امن فوج کی ایک چوکی پر اسرائیلی بمباری کی وجہ سے چار مبصرین ہلاک ہو گئے تھے۔

کوفی عنان نے گزشتہ روز کہا تھا کہ بظاہر اقوام متحدہ کی فوجی چوکی کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا ہے۔لیکن ایہود اولمرٹ کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی فوجی چوکی کو غلطی سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

ادھر جرمن چانسلر انگلا میرکل نے بھی اس واقعے پر گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے۔ دوسری طرف آئر لینڈ کی حکومت نے لبنان میں ایک اعلی آئرش فوجی افسر کی اس شکایت کے بعد کے اسرائیلی فوجیوں نے اقوام متحدہ کی فوجی چوکی پر حملے سے متعلق وارننگ کو نظر انداز کر دیا تھا، اسرائیلی سفیر سے وضاحت طلب کی ہے ۔

ادھر پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے لبنان میں اسرائیلی حملے میں اقوام متحدہ کے چار مبصرین کی ہلاکت کے واقعے کی سخت مذمت کی ہے۔

دوسری طرف جرمنی میں ایک بڑی یہودی تنظیم نے کہا ہے کہ اگر جرمنی کی فوج مشرق وسطی کے لئے بین الاقوامی امن فوج میںشامل ہوئی تو وہ اس کی مخالفت کرے گی۔ جرمنی میںیہودیوں کی مرکزی کونسل کے سیکریٹری جنرل اسٹیفن کرامر نے کہا کہ یہ چیز اسرائیل میں رہائش پذیر ہولوکاسٹ میں بچ جانے والے بہت سے یہودیوں کے لئے مشکل کا باعث بن جائے گی۔

جرمنی کی فری ڈیموکریٹک پارٹی کے خارجہ امور کے ترجمان وولف گانگ گیرہارٹ کا بھی کہنا ہے کہ انہیں جرمن سپاہیوں کو مشرق وسطی بھیجنے کی راہ میں بہت سی مشکلات نظر آرہی ہیں۔

یورپی یونین نے بھی آج مشرق وسطی کے بحران کا جائزہ لینے کے لئے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یورپی یونین نے لبنان میں 12.6 ملین یورو کی اضافی انسان دوستانہ امداد روانہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ آوارہ و طنوںاور دوسرے ممالک کے لوگوں کی لبنان واپسی کے لئے13.9 ملین ڈالر مختص کر دیے ہیں۔

ادھرآج 60 سے زیادہ ایرانی باشندوں کے ایک گروپ نے رضاکارانہ طور پر حزب اللہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف جنگ میں شریک ہونے کے لئے ترکی کی طرف بڑھنا شروع کر دیا ہے۔جہاں وہ شام کے راستے لبنان جانے کی کوشش کرے گا۔ اس گروپ میں نوجوانوں سے لے کر ادھیڑ عمر تک کے لوگ نظر آرہے ہیں۔ اس گروپ کا کہنا ہے کہ وہ راستے میں مزید 200 رضاکاروں کو اپنے ساتھ شریک کر نے میں کامیاب ہو جائے گا۔

اگرچہ ایرانیوں کو ترکی کے لئے ویزے کی ضرورت نہیں لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ترکی کسی بھی ایسی رضاکارانہ فورس کو اپنے علاقے سے گزرنے کی اجازت دے گا یا نہیں۔ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ حزب اللہ کی حمایت کے لئے باقاعدہ فوجی دستہ نہیں بھیجے گا۔ ادھر فرانس کے صدر ژاک شیراک نے کہا ہے کہ اسرائیل حزب اللہ کے درمیان جنگ شروع کرانے کی کسی حد تک ذمہ داری ایران پر عائد ہو تی ہے۔