1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روہنگيا مسلمانوں پر مظالم ’انسانيت کے خلاف جرائم‘

عاصم سلیم
4 اکتوبر 2017

انسانی حقوق سے متعلق امور پر نگاہ رکھنے والے اقوام متحدہ کے کئی ماہرين نے کہا ہے کہ ميانمار ميں روہنگيا مسلمان کميونٹی کے خلاف سکيورٹی فورسز کے اقدامات ’انسانيت کے خلاف جرائم‘ کے زُمرے ميں آ سکتے ہيں۔

https://p.dw.com/p/2lCYo
Bangladesch Biometrische Registrierung von Rohingya-Flüchtlinge
تصویر: DW/M. Mostqfigur Rahman

ميانمار کی رياست راکھين ميں سالہا سال سے بسنے والے روہنگيا مسلمانوں کے مبينہ قتل عام، جنسی زيادتی کے بے شمار واقعات اور انسانی حقوق کی سنگين خلاف وزرياں ’انسانيت کے خلاف جرائم‘ کے زُمرے ميں آ سکتے ہيں۔ يہ بات عورتوں اور بچوں کے حقوق کی نگران اقوام متحدہ کی ايک ذيلی کميٹی کے تحريری بيان ميں بدھ چار اکتوبر کے زور بتائی گئی ہے۔ بيان ميں لکھا ہے، ’’ہم بالخصوص روہنگيا عورتوں اور بچوں کے حوالے سے فکر مند ہيں، جنہيں انسانی حقوق کی سنگين خلاف ورزيوں، قتل، جبری گمشدگيوں اور جنسی زيادتی جيسے مسائل کا سامنا ہے۔‘‘ 

اقوام متحدہ ميں انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ زيد رعد الحسين شمالی راکھين رياست ميں جاری اقدامات کو ’نسل کشی‘ کی ’کتابی مثال‘ سے تعبير کر چکے ہيں۔ پچھلے پانچ ہفتوں کے دوران لگ بھگ پانچ لاکھ روہنگيا مسلم کميونٹی کے ارکان راکھين سے فرار ہو کر پناہ کے ليے بنگلہ ديش پہنچ چکے ہيں۔ اکثريتی پناہ گزين حکومتی فورسز پر قتل عام، ديہاتوں کو نذر آتش کر دينے، جنسی زيادتی اور مظالم کے الزامات لگاتے ہيں۔ ميانمار حکومت ايسے تمام تر الزامات رد کرتی آئی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ صرف جنگجوؤں کے خلاف کارروائی جاری ہے۔

Infografik Rohingya Bevölkerung ENG

دريں اثناء انسانی حقوق کے ليے بين الاقوامی سطح پر کام کرنے والے نيو يارک ميں قائم ايک ادارے ہيومن رائٹس واچ کی جانب سے بھی بدھ چار اکتوبر کو ہی يہ کہا گيا ہے کہ ميانمار کے سرکاری دستے قتل عام، پر تشدد کارروائيوں اور آتش زدگی کے واقعات ميں ملوث ہيں اور ان کا نشانہ روہنگيا مسلمان ہيں۔ ادارے کے مطابق کئی ديہات سے فرار ہونے والی عورتوں نے فوجيوں پر جنسی زيادتی کے الزامات بھی لگائے ہيں۔ ہيومن رائٹس واچ ميں ايشيا کے ڈپٹی ڈائريکٹر فل رابرٹسن نے کہا، ’’ان مظالم کو روکنے کے ليے محض الفاظ سے زيادہ کچھ درکار ہے۔‘‘ ان کے ادارے نے اقوام متحدہ کی سکيورٹی کونسل سے مطالبہ کيا ہے کہ نہ صرف ميانمار کو ہتھياروں کی فروخت روکی جائے بلکہ مظالم کے ذمہ دار فوجی افسران کے خلاف سفری پابندياں عائد کی جائيں اور ان کے اثاثوں کو منجمد کيا جائے۔