1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روہنگیا: ’فوج نے ایک چھوٹے سے بچے کو بھی نہیں بخشا‘

28 اگست 2017

مقامی آبادی کے مطابق میانمار کی فوج روہنگیا مسلمانوں پر ’بلاتفریق‘ گولیاں برسا رہی ہے جبکہ ہزاروں روہنگیاں فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچ رہے ہیں۔ میانمار حکومت کے مطابق باغی خود گھروں کو آگ لگا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2ixm3
Myanmar Kämpfe Flucht Rohingyas nach Bangladesch
تصویر: Reuters/M. P. Hossain

میانمار کی نوبل امن انعام یافتہ آنگ سان سوچی نے پیر کے روز الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ روہنگیا باغی گھروں کو آگ لگا رہے ہیں اور کم عمر بچوں کو بطور فوجی استعمال کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے میانمار حکومت نے اپنے فیس بک پیج پر تصاویر بھی جاری کی ہیں۔ دوسری جانب میانمار کی ریاست راکھین کے مسلح باغیوں نے اس الزام کی تردید کی ہے۔

میانمار کی روہنگیا اقلیت کو ایک عرصے سے امتیازی سلوک اور نسلی تشدد کا سامنا ہے۔ گزشتہ برس اکتوبر میں روہنگیا کے ایک غیرمعروف عسکری گروپ نے ملکی سکیورٹی فورسز پر حملے کیے تھے، جس کے بعد میانمار کی سکیورٹی فورسز نے روہنگیا اقلیت کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کر دیا تھا۔ اقوام متحدہ نے اس کے بعد سکیورٹی فورسز پر روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا الزام عائد کیا تھا۔

روہنگیا کو بھارت سے نہ نکالا جائے، انسانی حقوق کی تنظیمیں

تازہ ترین جھڑپوں کا آغاز گزشتہ جمعے کے روز اس وقت ہوا تھا جب مسلح باغیوں نے گھات لگا کر ملکی سکیورٹی فورسز پر نئے حملے کیے تھے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق تازہ جھڑپوں میں کم از کم 104 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی جا چکی ہے اور ان میں مبینہ طور پر اسی کے قریب باغی شامل ہیں۔

Bangladesch Rohingya Flüchtlinge bei Cox’s Bazar
ایک بنگلہ دیشی فوجی روہنگیا بچی کو ملکی سرحد میں داخل ہونے سے روک رہا ہےتصویر: Reuters/M. Ponir Hossain

ہزاروں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کی طرف فرار ہو گئے ہیں جبکہ مقامی بدھ مت اور ہندو بھی متاثرہ علاقوں سے نکل کر محفوط مقامات کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ مونگدو کے ایک رہائشی عزيز خان کا کہنا تھا کہ جمعے کے روز سرکاری فوجی ان کے گاؤں میں داخل ہوئے اور انہوں نے ’بلا تفریق‘ گولیاں برسانے کا عمل شروع کر دیا، ’’حکومتی فورسز اور سرحدی پولیس نے میرے گاؤں میں کم از کم گیارہ افراد کو ہلاک کیا۔ جو چیز بھی ان کو ہلتی نظر آئی اس کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کے بعد کچھ فوجیوں نے آگ لگائی۔ ہلاک ہونے والوں میں بچے اور خواتین بھی تھیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے ایک چھوٹے سے بچے کو بھی نہیں بخشا۔‘‘

میانمار کی حکومت مقامی باغیوں کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے جبکہ مقامی رہائشی ملکی فوج پر پرتشدد کارروائیاں کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ جن دیہات میں لڑائی جاری ہے، وہاں ان واقعات کی تصدیق کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔

 سن دو ہزار سولہ میں میانمار کی ریاست راکھین میں شروع ہونے والے پر تشدد واقعات اور روہنگیا کے خلاف اقدامات کے بعد سے اب تک ستاسی ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان اپنی جان بچا کر بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔

دوسری طرف اقوام متحدہ کی طرف سے روہنگیا کے خلاف میانمار حکومتی فورسز پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس عالمی ادارے کی تحقیقات کے مطابق روہنگیا آبادی کے خلاف حکومتی فوج کی کارروائیاں نسل کشی کے زمرے میں آسکتی ہیں۔