1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’رکنا موت ہے‘: دنیا کی بہت فعال انتہائی بزرگ شخصیات

12 فروری 2011

انسان کی عمر بہت زیادہ ہو جائے تو بیکار رہنے سے موت اور بھی قریب محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے مختلف ملکوں میں دنیا کے بہت سے مشہور لیکن انتہائی بزرگ شہری ابھی تک خود کو بہت مصروف رکھے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/10G8V
تصویر: dpa

انہی میں سے ایک پرتگال کے مشہور زمانہ فلم ڈائریکٹر مانوئیل دے اولیویئیرا بھی ہیں، جن کی عمر 102 برس ہے۔ یہ پرتگالی فلم ہدایت کار ہر سال ایک نئی فلم ڈائریکٹ کرتے ہیں اور ان دنوں اپنے اگلے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ دے اولیویئیرا کا ایک مشہور قول ہے، ’جو رک جاتے ہیں، یا کسی جگہ پر کھڑے رہ جاتے ہیں، وہ مر جاتے ہیں۔‘

دے اولیویئیرا آج بھی اپنے پیشے کی ایک بڑی مصروف شخصیت ہیں اور ان کا کہنا ہے، ’آپ کو کام کرتے رہنا چاہیے۔ کام، کام اور کام۔ اس طرح آپ کو یہ بھول جانے میں مدد ملتی ہے کہ موت زیادہ دور نہیں ہے۔‘

دے اولیویئیرا اپنی ضعیف العمری کے باوجود کمزور یا کم ہمت نہیں ہیں۔ لیکن وہ سو برس سے زائد کی عمر میں غیر معمولی جسمانی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے واحد انسان بھی نہیں ہیں۔ ان کے علاوہ 103 سالہ ماہر تعمیرات اوسکر نیمائیر، 101 سالہ نوبل انعام یافتہ ریٹا لیوی مونتالسینی اور 100 سالہ ڈائریکٹر کُرٹ مَیٹسِگ بھی ایسے ہی منفرد اور باہمت انسانوں کی مثالیں ہیں۔

Flash-Galerie Alzheimer Diagnostik
ترقی یافتہ ممالک میں بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال اور ان کے لیے تفریح کے ذرائع کی فراہمی کا خاص خیال رکھا جاتا ہےتصویر: Odilon Dimier/6PA/MAXPPP

پروفیسر پال بالٹیس ایک ایسے ماہر نفسیات تھے، جنہوں نے بزرگ انسانوں کی نفسیات کا سالہا سال تک مطالعہ کیا تھا۔ ان کی موت 67 برس کی عمر میں سن 2006 میں ہوئی تھی۔ پروفیسر بالٹیس کے تجربے کا نچوڑ یہ موقف تھا کہ سفید بالوں والا ہر انسان دانا نہیں ہوتا۔ وہ بزرگ شہری زیادہ کامیاب اور فعال رہتے ہیں جو سماجی میل جول کی بہتر صلاحیت رکھتے ہوں لیکن ساتھ ہی خود اپنی ذہنی تربیت بھی کر سکتے ہوں۔

پروفیسر پال بالٹیس کا نظریہ یہ تھا کہ بڑھاپے میں ذہنی اور جسمانی طور پر تندرست رہنا کسی حد تک نصیب کی بات بھی ہوتی ہے لیکن اس کا کافی زیادہ تعلق کسی بھی انسان کے کردار یعنی اس کے رویوں اور طرز فکر سے بھی ہوتا ہے۔

اس کے لیے پرتگالی فلم ہدایت کار دے اولیویئیرا کی مثال دی جا سکتی ہے۔ ایک بار جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی عمر کتنی ہے، تو ان کا جواب تھا کہ ’اس کا مجھ سے بہتر علم قدرت کو ہو گا۔ مجھے قدرت نے وہ بھی دے دیا جو اس نے دوسروں سے واپس لے لیا تھا۔‘

برازیل سے تعلق رکھنے والے 103 سالہ ماہر تعمیرات اوسکر نیمائیر کی ڈیزائن کردہ ’فیوچرسٹک‘ عمارات کی برازیلیہ میں کوئی کمی نہیں ہے۔ وہ آج بھی غریبوں کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی بڑا تعمیراتی شاہکار وہ نہیں ہوتا جو صرف مراعات یافتہ اقلیت کے استعمال میں آئے، بلکہ شاہکار وہ ڈیزائن ہوتا ہے جس سے ہر کوئی فائدہ اٹھا سکے۔ نیمائیر اس عمر میں بھی ہر روز کام کرتے ہیں۔ برازیل میں ان کا دفتر کوپا کابانا میں ہے اور اگر وہ کبھی بیمار پڑ جائیں تو عملی طور پر کوئی نہ کوئی نیا بلڈنگ ڈیزائن بناتے رہنے کی بجائے کسی نہ کسی نئے آئیڈیا پر کام کرتے رہتے ہیں۔

Bombenanschlag am Flughafen Düsseldorf
ایک بزرگ جرمن شہری ڈسلڈورف کے ہوائی اڈے پرتصویر: AP

ایسی ہی ایک اور مثال 107 سالہ یوہانیس ’یوپی‘ ہیسٹرز کی ہے۔ وہ ہالینڈ میں پیدا ہوئے تھے اور اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ انہوں نے جرمنی میں اوپرا گلوکار کے طور پر گذارا۔ وہ ابھی تک گلوکاری کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ 108 سال کے ہو جائیں۔ ہیسٹرز کا کہنا ہے، ’ میں یہ تو نہیں کر سکتا کہ بیکار گھر پر بیٹھا رہوں، اس انتظار میں کہ کسی دن کوئی آئے اور مجھے ساتھ لے جائے۔‘

اٹلی کی معروف خاتون سائنسدان ریٹا لیوی مونتالسینی نوبل انعام یافتہ محقق ہیں۔ ان کی عمر 101 برس ہے۔ وہ آج بھی نیورو بیالوجی کے شعبے میں تحقیق کرتی اپنی تجربہ گاہ میں بڑی مصروف رہتی ہیں۔ انہیں 1986 میں ان کے ایک ساتھی محقق کے ساتھ مشترکہ طور پر طب کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔ لیوی مونتالسینی کہتی ہیں کہ انسانیت کی تاریخ اور سائنس کا علم ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ انسان مختلف چیلنجوں کی وجہ سے ہی نشو و نما پاتا ہے۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں