1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زمبابوے: چنگرائی وزیر اعظم بن گئے

ندیم گل11 فروری 2009

زمبابوے میں بدھ کو حزب اختلاف کے رہنما مورگن چنگرائی نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ یوں اس بحران زدہ افریقی ملک میں شراکت اقتدار کا معاہدہ بلآخر نافذ ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/Grza
حزب اختلاف کے رہنمامورگن چنگرائی اب وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہو گئے ہیںتصویر: AP

تاہم سیاسی حریفوں کے مابین اس معاہدے پر شک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ سیاسی طور پر ناتجربہ کار مورگن چنگرائی ملکی معیشت کو کس طرح بحال کریں گے۔

صدر رابرٹ موگابے نے اپنے سیاسی حریف اور حزب اختلاف کے رہنما مورگن چنگرائی سے وزارت عظمیٰ کے عہدے کا حلف لیا۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان شراکت اقتدار کے معاہدے پر اتفاق گزشتہ سال ہوا تھا۔ تاہم اس معاہدے کا نفاذ جنوبی افریقی ممالک کے دباؤ سے ممکن ہوا ہے۔

یہ افریقی ریاست بدترین اقتصادی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ افراط زر کی بڑھتی ہوئی شرح نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، نصف سے زائد ملکی آبادی کا انحصار امدادی ‌خوراک پر ہے جبکہ ہیضے کی وبا سے تقریبا ساڑھے تین ہزار افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ بے روزگاری کی شرح 90 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ یہ سب چیلنجز نئی حکومت کے امتحان کے لئے تیار کھڑے ہیں۔

Robert Mugabe Präsident Zimbabwe
زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابےتصویر: AP

اقتصادی حالات میں بہتری کے لئے ہرارے حکومت کا انحصار بیرونی سرمایہ کاروں اور ترقی یافتہ ممالک کی جانب سےملنے والی امداد پر ہے۔ مغربی ممالک اپنی مالی معاونت کو پہلے ہی نئی جمہوری حکومت کے قیام اور اقتصادی اصلاحات سے مشروط کر چکے ہیں۔ تاہم تازہ پیش رفت کے بعد عالمی برادری نے زمبابوے میں نئی حکومت کی تشکیل کا خیرمقدم کیا ہے۔ یورپی یونین نے ایک بیان میں کہا کہ ملک کے لئے جمہوریت کی جانب یہ ایک اہم قدم ہے۔

اُدھر ملک کے اندر مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے چنگرائی اور موگابے کے درمیان شراکت اقتدار کے فارمولے پر ملے جلے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ انسانی حقوق کی ایک کارکن ٹٹسی ٹورونگو نے رابرٹ موگابے پر عدم اعتماد کا اظہار کیا: "میں نے زانو پی ایف پر کبھی بھروسہ نہیں کیا۔ میرا تو یہ ماننا ہے کہ وہ وہ ترقی کا راستہ روکے رہیں گے۔"

زمبابوے کی نیشنل اسٹوڈنٹ یونین کے صدر Auch Clever Bere کا کہنا ہے کہ یہ تو عبوری حکومت ہے اور شاید حالات بہتر ہو ہی جائیں: "ہمیں نئی حکومت پر شبہ ہے لیکن شاید ہمیں اس کو کچھ وقت دینا چاہئے، ہمیں ان کے لئے اہداف بھی مقرر کرنے ہوں گے۔"

مختلف حلقے ملک کے اقتصادی بحران کے لئے صدر موگابے کو ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔ نئے وزیر اعظم نے ابھی تک معیشت کو بحرانوں سے نکالنے کا کوئی فارمولا پیش نہیں کیا تاہم انہوں نے حلف برداری کی تقریب کے بعد سیاسی تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کے فوری خاتمے پر زور دیا۔

شراکت اقتدار کے معاہدے کے تحت صدر کا عہدہ اور فوج کا کنٹرول رابرٹ موگابے کے پاس ہی رہے گا تاہم ان کے اختیارات کم کر دیے جائیں گے۔ پولیس کا محکمہ وزیر اعظم مورگن چنگرائی کے پاس چلا جائے گا۔ وہ وزراء کی کونسل کی سربراہی میں کریں گے۔

مورگن چنگرائی نے گزشتہ سال صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں رابرٹ موگابے پر فتح حاصل کر لی تھی تاہم بعدازاں اپنے حامیوں پر تشدد کی بنا پر وہ ان انتخابات سے دستبردار ہو گئے تھے۔

56 سالہ مورگن چنگرائی حز‍ب اختلاف موومنٹ فار ڈیموکریٹک چینج کے سربراہ ہیں۔ 84 سالہ رابرٹ موگابے زانو پی ایف پارٹی کے سربراہ ہیں۔ وہ 1980 میں برطانیہ سے زمبابوے کی آزادی کے بعد سے حکمرانی کر رہے ہیں۔