1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زمین جیسے سیاروں کی تلاش کے لئے کیپلر ٹیلی سکوپ نے خلاء میں کام شروع کردیا

افسراعوان25 مارچ 2009

کائنات کی وسعتوں میں زمین حجم کے لحاظ سے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ لیکن جو چیز زمین کو کائنات میں ممتاز کرتی ہے وہ ہے اس پر زندگی کی موجودگی۔ ناسا نے زمین جیسے دوسرے سیاروں کی تلاش کے لئے حال ہی میں خصوصی مشن روانہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/HJOo
سیارہ مریخ پر زندگی کی علامات کی تلاش کے حوالے سے بھی تحقیق کئی سالوں سے چل رہی ہےتصویر: ESA - Illustration by Medialab

سائنسدانوں کے مطابق کائنات کی وسعتوں میں زمین کی حیثیت ریگستان میں ریت کے ایک ذرے کے برابر ہے۔ یعنی یہ کائنات اتنی بڑی اور وسیع ہے کہ اس میں زمین اپنے حجم کے لحاظ سے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ لیکن جو چیز زمین کو ممتاز کرتی ہے وہ ہے اس پر زندگی کی موجودگی۔ جدید ترین خلائی تحقیق اور کوششوں کے باوجود اب تک حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق زمین کے علاوہ کائنات میں کسی بھی اور سیارے پر زندگی کی موجودگی کا پتہ نہیں چلایا جاسکا۔

Raumkapsel Sojus 19
نظام شمسی میں اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہےتصویر: AP

مگر حال ہی میں امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا نے قریب ترین کہکشاؤں میں زندگی کے امکان کی تلاش کے لئے ایک انتہائی جدید اورطاقتور دوربین خلا میں روانہ کی ہے۔ امریکا کے خلائی تحقیق کے ادارے ناسا کی جانب سے کیپلر نامی خلائی دوربین 7 مارچ دوہزار نو کو فلوریڈا میں کیپ کارنیوال ائر فورس اسٹیشن سے ڈیلٹا ٹو راکٹ کے ذریعے خلا بھیجی گئی۔

ناسا کی جانب سے زمین جیسے سیاروں کا سراغ لگانے کا یہ پہلا خصوصی مشن ہے جسے کائنات میں موجود زمین کے سائز کے ایسے سیاروں کی تلاش کے لئے روانہ کیا گیا ہے جو اپنے سورج سے اس قدر مناسب فاصلے پر ہوں کہ ان کی سطح پر پانی کی موجودگی ممکن ہوسکے۔ کیونکہ پانی کی مائع شکل کو زندگی کے لئے ایک بنیادی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔

Der Mars kommt näher
زندگی کی علامات کے حوالے سے پہلے ہی کئی سیارے سائنسدانوں کے زیر مطالعہ ہیںتصویر: AP

کیپلر کو سورج کے مدار میں زمین سے پیچھے 950 کلومیٹر کی دوری پر خلا میں چھوڑا گیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمین سے اسکے فاصلے میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ کیونکہ اب سے پانچ برس قبل ناسا ہی کی جانب سے خلا میں چھوڑی گئی سپٹزرSpitzer نامی خلائی دوربین اب زمین سے 62 ملین میل کی دوری پر سورج کے مدار میں گردش کرہی ہے۔

پاساڈینا کیلفورنیا میں کیپلر مشن کے پراجیکٹ منیجر جیمز فانسن نے اس خلائی دوربین کی روانگی کے موقع پر کہا کہ ان کی ٹیم ایک ایسے یادگار عمل کا حصہ بننے پر بہت ہی پرجوش ہے، جو نسل انسانی کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کیپلر ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے گی کہ کیا ہم اس کائنات میں بالکل اکیلے ہیں یا اور بھی کہیں زندگی بستی ہے۔

کیپلر ٹیلی اسکوپ میں انتہائی طاقتورکیمرہ نصب کیا گیا ہے جو خلا میں اب تک بھیجا جانے والا سب سے بڑا کیمرہ ہے۔ مشن کے دوران یہ دوربین سورج سے ہماری زمین کے فاصلے اور درجہ حرارت کو پیمانہ بناتے ہوئے دوسرے ستاروں کے مدار میں زمین جیسے سیارے ڈھونڈے گی۔ اس سروے کے بعد سائنس دان یہ بتانے کے قابل ہوسکیں گے کہ کائنات میں زمین جیسے دوسرے سیارے بھی موجود ہیں یا نہیں۔ناسا کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کیپلر ٹیلے اسکوپ مشن کے دوران سورج جیسے ایک لاکھ ستاروں کا تجزیہ کرے گی اور تقریباً پچاس ایسے سیاروں کا صحیح سائز معلوم کرے گی۔ جن پر زندگی کا وجودہوسکتاہے یا کم از کم وہ زمین سے مشابہت رکھتے ہوں۔

G8 Klima die Erde
سیارہ زمین کی خلا سے لی گئی ایک تصویرتصویر: AP

کیپلر مشن کے سائنسی معاملات کے پرنسپل انویسٹیگیٹر ولیم باروکی William Borucki کے مطابق کیپلر کم از کم ایک لاکھ ستاروں اور ان کے گرد چکر لگانے والے سیاروں کے مشاہدے کے لئے بہت ہی بہترین مقام پر موجود ہے۔ ولیم باروکی نے مزید کہا کہ اس پراجیکٹ پر کام کرنے والے تمام افراد بہت ہی پرجوش ہیں کیونکہ ہمارے خواب حقیقت کا روپ دھارنے والے ہیں، کیونکہ ہم بہت جلد یہ جاننے والے ہیں کہ کہکشاں میں ہمارے جیسے دوسرے سیاروں کا وجود ممکن ہے یا نہیں۔

اس مشن پر کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر زمین سے کسی اور سیارے کے وجود کا پتہ نہیں بھی چلتا تو پھر بھی اس کی بہت اہمیت ہے، کیونکہ ہم اس نتیجے تک پہنچ سکیں گے کہ اس کہکشاں میں بالکل اکیلے ہیں۔