1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زيادہ تر افغان مہاجرين کو واپس بھيج ديا جائے گا، جرمن وزير

عاصم سليم1 فروری 2016

جرمن وزير داخلہ تھوماس ڈے ميزيئر نے آج پير یکم فروری کے روز اپنے دورہ افغانستان کے دوران کہا کہ جرمنی ميں سياسی پناہ کے متلاشی زيادہ تر افغان تارکين وطن کو ملک بدر کر ديا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/1Hmze
تصویر: Imago/Mauersberger

تھوماس ڈے ميزيئر کا اشارہ بالخصوص اُن افغان تارکين وطن کی طرف تھا جو محض بہتر معاش کی خاطر اپنے ملک کو چھوڑ کر جرمنی کا رُخ کر رہے ہيں۔ جرمن وزير داخلہ نے يہ بيان آج بروز پير افغان دارالحکومت کابل ميں ديا۔ اُن کے افغانستان کے دورے کا مقصد جرمنی کا رُخ کرنے والے افغان تارکين وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے ميں بات چيت ہے۔

گزشتہ برس جرمنی ميں تقريباً ڈيڑھ لاکھ افغان مہاجرين نے سياسی پناہ کی درخواستيں جمع کرائيں جبکہ 2014ء ميں يہ تعداد صرف 9,700 تھی۔ شامی پناہ گزينوں کے بعد پچھلے سال پناہ کے ليے يورپی ملک جرمنی پہنچنے والا تعداد کے لحاظ سے دوسرا سب سے بڑا گروپ افغانيوں کا تھا۔

دورہ افغانستان کے موقع پر جرمن وزير داخلہ نے کہا، ’’بلا شبہ افغانستان ميں سلامتی کی صورت حال پيچيدہ ہے ليکن يہ کافی بڑا ملک ہے۔ وہاں غير محفوظ علاقے ہيں تو محفوظ علاقے بھی ہيں۔‘‘ ڈے ميزيئر کا مزيد کہنا تھا کہ ايسے افغان شہری جو سياسی پناہ کے حق دار نہيں، اُنہيں واپس اپنے ملک جا کر محفوظ مقامات پر منتقل ہو جانا چاہيے۔

جرمن وزير داخلہ تھوماس ڈے ميزيئر اور افغان صدر اشرف غنی
جرمن وزير داخلہ تھوماس ڈے ميزيئر اور افغان صدر اشرف غنیتصویر: picture-alliance/dpa/Bundesinnenministerium

جرمن وزير نے نيوز ايجنسی ڈی پی اے کو بتايا کہ افغانستان ميں سرگرم انسانوں کے اسمگلرز لوگوں ميں ايسی افواہيں پھيلا رہے ہيں کہ جرمنی ميں حالات ’جنت‘ کے مساوی ہيں۔ تھوماس ڈے ميزيئر کے مطابق زيادہ تر افغان تارکين وطن پناہ کی نہيں بلکہ بہتر معاشی حالات کی تلاش ميں ہجرت کر رہے ہيں۔

جرمن وزير نے افغانستان ميں اپنی زندگياں نئے سرے سے دوبارہ شروع کرنے والے افغان باشندوں کے ليے مالی امداد کو خارج از امکان قرار نہيں ديا۔ موجودہ جرمن قوانين کے تحت سياسی پناہ کے ناکام درخواست دہنگان، واپسی کے اخراجات کے ليے درخواست جمع کرا سکتے ہيں۔

واضح رہے کہ جرمن چانسلر انگيلا ميرکل نے اپنے ناقدين اور مخالفين کو يقين دہانی کرائی ہے کہ سال رواں ميں پناہ کے ليے جرمنی ميں داخل ہونے والے تارکين وطن کی تعداد ميں کمی متعارف کرائی جائے گی۔ گزشتہ برس شام، عراق، پاکستان، افغانستان اور شمالی افريقی ملکوں سے تقريبا 1.1 ملين پناہ گزين جرمنی پہنچے، جس کے سبب انتظاميہ کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔