1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سابقہ نازی جرمن جنگی قیدی ساری پونجی سکاٹش گاؤں کو دے گیا

مقبول ملک
3 دسمبر 2016

دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانیہ میں جنگی قیدی رہنے والا ایک جرمن فوجی اظہار تشکر کی منفرد مثال قائم کر گیا ہے۔ نازی فوج کے ایس ایس دستوں کے اس سابق فوجی نے مرتے ہوئے اپنی جمع پونجی ایک سکاٹش گاؤں کے نام کر دی۔

https://p.dw.com/p/2ThFQ
2. Weltkrieg erschöpfte deutsche Kriegsgefangene
دوسری عالمی جنگ کے دوران قیدی بنائے گئے جرمن فوجی، فائل فوٹوتصویر: picture alliance / akg-images

برطانوی دارالحکومت لندن سے ہفتہ تین دسمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ہٹلر دور کے اس سابق نازی جرمن فوجی کا نام ہائنرش شٹائن مائر تھا، جو 19 برس کی عمر میں ایس ایس دستوں کے ایک فوجی کے طور پر برطانیہ میں جنگی قیدی بنا لیا گیا تھا۔

تین لاکھ یہودیوں کے قتل میں معاونت: نازی مجرم کی سزا برقرار

دو روز میں 33 ہزار سے زائد یہودیوں کے قتل عام کی 75 ویں برسی

نئے جرمن میوزیم میں ہٹلر دور کے شرمناک ماضی کی یادیں

بعد ازاں اسے برطانیہ میں پرتھ شائر کاؤنٹی میں کومری نامی سکاٹش گاؤں کے قریب کلٹی برّگن کے مقام پر جنگی قیدیوں کے ایک کیمپ میں رکھا گیا تھا۔ تب مقامی باشندوں نے اس نازی جرمن جنگی قیدی سے اتنا اچھا سلوک کیا تھا کہ جنگ کے اختتام پر اپنی رہائی کے بعد کے کئی عشروں کے دوران بھی ہائنرش شٹائن مائر باقاعدگی سے اس گاؤں میں جاتا رہا تھا۔

پھر 2014ء میں جب ہائنرش کا انتقال ہوا، تو اپنی موت سے قبل وہ اپنی عمر بھر کی جمع پونجی، جو قریب تین لاکھ چوراسی ہزار برطانوی پاؤنڈ یا قریب چار لاکھ پچاسی ہزار امریکی ڈالر کے برابر بنتی تھی، سکاٹ لینڈ کے اس گاؤں کے نام کر گیا۔

ہائنرش شٹائن مائر کے دیرینہ دوست ایک سکاٹش جوڑے کے اس وقت خود بھی کافی عمر رسیدہ بیٹے جارج کارسن نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ہائنرش شٹائن مائر نے اپنی وصیت میں کہا کہ وہ اپنی تمام جمع پونجی اس لیے اس گاؤں کے نام کر رہا تھا کہ کومری کی مقامی آبادی میں شامل ضعیف العمر افراد کی مدد کر سکے۔

یہ بات واضح نہیں کہ شٹائن مائر کی موت کے قریب دو سال بعد اس کی وصیت کی یہ تفصیلات منظر عام پر اب ہی کیوں آئی ہیں۔ تاہم ایک قابل اعتماد دلیل کومری کے ترقیاتی ٹرسٹ کا یہ بیان ہے کہ ہائنرش شٹائن مائر نے اپنا ایک گھر اور جو دیگر املاک اس گاؤں کے نام چھوڑیں، ان سے متعلق یہ اعلان ان اثاثوں کے حوالے سے جملہ قانونی امور طے ہو جانے کے بعد اب ہی کیا جا سکتا تھا۔

جارج کارسن کے بقول ہائنرش شٹائن مائر کا یہ اقدام اس کی طرف سے اس سکاٹش گاؤں کے لوگوں کا شکریہ ادا کرنے کا بہت منفرد انداز ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میرے ماں باپ کی ہائنرش کے ساتھ دوستی جنگی قیدیوں کے کیمپ کی خار دار تاروں کے آر پار سے ہوئی تھی اور پھر وہ اپنی باقی ماندہ پوری زندگی کے لیے دوستی کے ایک بہت مضبوط رشتے میں بندھ گئے تھے۔‘‘

کارس نے مطابق، ’’اس گاؤں نے ہائنرش کے ساتھ اس وقت بہت دوستانہ رویہ اپنایا تھا جب ہائنرش ایک نوجوان جنگی قیدی کے طور پر اپنی زندگی کے انتہائی مشکل دور سے گزر رہا تھا۔‘‘

کارسن نے یہ بھی بتایا کہ جنگی قیدی بننے تک ہائنرش نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کوئی فلم نہیں دیکھی تھی۔ ’’تب میری والدہ نے اپنے چند دستوں کے ساتھ مل کر اپنے ایک بھائی کی اسکول کی یونیفارم چرا کر کیمپ میں لے جا کر ہائنرش کو دی تھی، جس نے وہ پہنی تو تب یہ تمام نوجوان ہائنرش کو کیمپ سے ’اسمگل‘ کر کے سینما لے گئے تھے۔ وہاں ہائنرش نے زندگی میں پہلی بار کسی سینما میں کوئی فلم دیکھی تھی، جس کے بعد اس کے دوستوں نے اسے واپس اس کے کیمپ میں پہنچا دیا تھا۔‘‘

کارسن کے بقول انسانی دوستی کے یہ اور ایسے ہی کئی دیگر واقعات تھے، جن کی وجہ سے ہائنرش کو اس گاؤں سے محبت ہو گئی تھی اور جاتے ہوئے وہ اپنی ساری جمع پونجی بھی اسی گاؤں کے نام کر گیا۔