سابق پاکستانی چیف جسٹس کا سیاسی پارٹی کے قیام کا اعلان
25 دسمبر 2015انہوں نے یہ اعلان پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے یوم پیدائش اور مسیحیوں کے مذہبی تہوار کرسمس کے موقع پر پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں کیا۔ لگ بھگ ایک ہزار افراد کی موجودگی میں اپنی سیاسی جماعت کے قیام کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ وہ ملک میں پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام حکومت کے لیے جدوجہد کریں گے۔
افتخار محمد چوہدری جب سٹیج پر تقریر کر رہے تھے تو ان کے ہمراہ ملک کی کوئی بھی قابل ذکر سیاسی شخصیت موجود نہیں تھی۔ البتہ سن دو ہزار سات کی وکلاء تحریک میں شامل چند نسبتاﹰ غیر معروف ماہرین قانون ان کے ساتھ ضرور تھے۔
سابق چیف جسٹس چوہدری کا کہنا تھا کہ اگر وہ چاہتے تو پرآسائش زندگی گزار سکتے تھے لیکن ان کے بقول انہوں نے عوام کو ’ملک نوچنے والے گِدھوں‘ سے چھٹکارا دلانے کے لیے اپنے لیے سیاسی میدان کا انتخاب کیا ہے۔
افتخار محمد چوہدری دسمبر دو ہزار تیرہ میں چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے اور انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے دو سال مکمل ہونے کے بعد ہی آج اپنی سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کیا۔ ملکی قانون کے تحت سرکاری عہدہ رکھنے والا کوئی بھی شخص ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال تک سیاسی سر گرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا۔
افتخار چوہدری نے پاکستان کی دو بڑی جماعتوں، حکمران مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے نام لیے بغیر ان کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا، ’’ہماری پارٹی میں وہ لوگ شامل ہوں گے جنہیں پاکستان سے انس ہوگا۔ ان پر کرپشن کرنے کے الزام اور ان کے خلاف کرپشن کے ریفرنسز دائر نہیں ہوئے ہوں گے۔ جنہوں نے آئی ایس آئی سے پیسے لے کر الیکشن نہیں چرایا ہوگا۔ عوامی مینڈیٹ چرانے والے کس منہ سے حکومت کرنے کے اہل ہیں۔‘‘
پاکستانی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نے کہا، ’’ہمارا تعلق ان سے ہو گا، جن کا جینا مرنا پاکستان میں ہو گا۔‘‘ افتخار چوہدری نے شریف برادران کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’جو لوگ مشکل وقت میں کسی بھی وجہ سے ملک سے بھاگ کر چلے گئے تھے، ہمیں ان کی مذمت کرنا ہو گی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت کا منشور تین نکات عدل، احتساب اور صدارتی نظام حکومت کے لیے جدوجہد پر مبنی ہوگا۔
افتخار چوہدری کا کہنا تھا کہ ورلڈ بینک کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 65 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’پاکستانیوں کی دو سو ارب ڈالر کی رقوم سوئٹزرلینڈ سمیت دنیا کے دیگر ملکوں کے بینکوں میں پڑی ہیں۔ اگر یہ لوٹی ہوئی رقوم واپس ملک میں لائی جائیں تو ملکی قرضے جو 68 ارب ڈالر ہیں، وہ بھی ختم ہو جائیں گے اور پھر بھی بہت بڑی رقوم ملکی ترقی کے لیے بچ جائیں گی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت کے نعرے ’اقتدار عوام تک‘ اور ’ترقی سب کا حق ہے‘ ہیں، جن پر چلتے ہوئے وہ ملک کو ہر قسم کے بحرانوں سے نکالیں گے۔ انہوں نے بطور چیف جسٹس اپنے دور میں کیے گئے عوامی اہمیت کے فیصلوں کا حوالہ بھی دیا۔ سابق چیف جسٹس چوہدری نے کہا کہ آج ملک میں انصاف نہ ہونے کی وجہ سے غریب لوگ بچوں سمیت خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں جبکہ انہوں نے اپنے دور میں ’از خود نوٹس‘ لینے کے عمل کے ذریعے انصاف لوگوں کی دہلیز تک پہنچایا۔
دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افتخار محمد چوہدری ملکی تاریخ کے پہلے چیف جسٹس ہیں جوسیاست میں آئے ہیں اور جنہوں نے اپنی ایک سیاسی پارٹی قائم کی ہے۔
سینیئر صحافی اور وقت نیوز کے اینکر پرسن مطیع اللہ جان کا کہنا ہے، ’’افتخار محمد چوہدری کی سیاست میں آمد غیر متوقع نہیں۔ لیکن سیاست کا میدان ان کے لیے کیسا رہے گا، فوری طور پر اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن میرے خیال میں انہیں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہوگا کہ وہ پاکستان جیسے ملک میں کسی اہم شخصیت کی شمولیت کے بغیر کس طرح اپنی پارٹی کو آگے لے کر جاتے ہیں۔ یا شاید وہ پاکستان کی بہت سی اہم شخصیات کی طرح سیاست میں کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ انہیں ان سیاسی جماعتوں اور دیگر حلقوں کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا جنہیں اپنے دور میں انہوں نے عدالتی فیصلوں کے ذریعے سیاسی طور پر متا ثر کیا۔‘‘
خیال رہے کہ افتخار محمد چوہدری نے پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں متعدد ایسے فیصلے دیے تھے، جن میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر حکمران جماعت کی ساکھ کو کافی نقصان پہنچا تھا۔
افتخار محمد چوہدری کی سیاسی جماعت کا قیام آج ایک خبر کے طور پر ان کے حامیوں کے لیے اس وجہ سے زیادہ خوش کن نہ رہا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی اچانک لاہور آمد کی وجہ سے مقامی ذرائع ابلاغ پر چوہدری کا ’بڑا سیاسی اعلان‘ خاطر خواہ توجہ حاصل نہ کر سکا۔