1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سال 2008 اورجرمنی اور یورپ

مقبول ملک3 جنوری 2009

سال دو ہزار آٹھ کی پہلی ششماہی کے دوران یورپی یونین کی صدارت سلووینیہ کے پاس رہی، دوسری ششماہی میں یہ صدارت فرانس کے پاس چلی گئی اور نئے سال کے آغاز پر اگلے چھہ ماہ کے لئے چیک جمہوریہ یورپی یونین کا صدر ملک بن گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/GQQo
تصویر: picture-alliance/ dpa

2008 کی پہلی ششماہی کے دوران یورپی یونین کی صدارت سلووینیہ کے پاس تھی۔ یکم جنوری سے سلووینیہ کی صدارت کا عرصہ بہت حوصلہ افزاء انداز میں شروع ہوا مگر 30 جون کے روز اس کا اختتام اس لئے غیر متوقع حالات میں ہوا کہ تب تک آئرلینڈ میں ہونے والے ایک ریفرینڈیم میں عوام کی اکثریت یورپی یونین میں اصلاحات کے لزبن کے معاہدے کو مسترد کرچکی تھی۔ جون ہی میں اس ریفرینڈیم کے نتائج کے حوالے سے آئرلینڈ کے وزیر اعظم برائین کووین نے کہا تھا: "ہماری متفقہ سوچ یہ تھی کہ اس ریفرینڈیم کےبعد آئرلینڈ کو اب وقت چاہیئے، ان نتائج کا تجزیہ کرنے اور نئے امکانات تلاش کرنے کے لئے۔"

Jahresrückblick 2008 International Juni Irland EU Volksabstimmung zu Lissabon Nein Graffiti
آئرلینڈ میں ایک ریفرینڈیم میں عوام کی اکثریت نے یورپی یونین میں اصلاحات کے لزبن معاہدے کو مسترد کردیاتصویر: AP

آئرلینڈ میں معاہدہ لزبن سے متعلق ریفرینڈیم کی ناکامی پر زیادہ غور وفکر کرنے کی بجائے 2008 کی دوسری ششماہی میں جب یونین کی سربراہی فرانس کو منتقل ہوئی تو صدر نکولا سارکوزی کو کئی اور منصوبے بھی مصروف رکھے ہوئے تھے۔ مثلاً بحیرہ روم کے علاقے کی یونین سے متعلق منصوبہ۔ اسی لئے یورپی یونین کے رکن ملکوں اور بحیرہ روم کے علاقے کی ریاستوں کی سربراہی کانفرنس میں جب Mediterranean یونین کی بنیاد رکھی گئی تو نکولا سارکوزی تحفظ ماحول کی کوششوں کے حق میں ایک جذباتی تقریر کرتے ہوئے کہا تھا: "ہم انسانوں کی وہ آخری نسل ہیں جو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والی تباہی کو روک سکتی ہے۔ اگر ہم نے فوری طور پر نتیجہ خیز اقدامات نہ کئے تو ہم سے بعد میں آنے والی نسل ماحولیاتی تباہی کے باعث ہونے والے نقصانات کو محدود رکھنے کی کوشش تو کرے گی، لیکن اُسے مکمل طور پر روکنا اُس کے بس میں نہیں ہوگا۔"

Türkei Greenpeace Klimawechsel Protestaktion Symbolbild Wecker Uhr
ترک شہر اسنبول میں گرین پیس مہم کی معروف کارکن ہلال عتیقی ماحولیاتی تبدیلی کے عالمی دن کے موقع پر ایک ریلی کے دورانتصویر: AP

یورپی یونین کی صدارت کے فرانسیسی عرصے کو شروع ہوئے ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ اگست میں جارجیا اور روس کے مابین جنگ شروع ہو گئی۔ روسی فوجی دستے جارجیا میں داخل ہو گئے جس پر یورپی یونین کی طرف سے کھل کر تنقید بھی کی گئی۔ تب یورپی کمشن کے صدر خوزے مانویل باروسو نے کہا تھا: "یہ امر واضح ہے کہ قفقاذ کے علاقے میں تازہ ترین واقعات کی روشنی میں ہم خود کو یہ کہہ کر چھوٹی تسلی نہیں دے سکتے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔"

اس جنگ پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے برسلز میں یورپی یونین کی قیادت نے روس کے ساتھ اپنے ایک نئے شراکت داری معاہدے سے متعلق مذاکرات معطل کردیئے لیکن ساتھ ہی فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی اپنی ہنگامی کوششوں کے نتیجے میں روس اور جارجیا کو فائر بندی پر آمادہ کرنے میں بھی کامیاب رہے۔

Russischer Konvoi auf dem Weg nach Südossetien
ٹینکوں پر سوار روسی فوجی جارجیا سے علیحدہ ہونے والے خطّے جنوبی اوسیتیا کے دارالحکومت کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئےتصویر: AP

اسی دوران مغربی دفاعی تنظیم نیٹو میں شامل ریاستیں اس بارے میں اختلاف رائے کا شکار ہیں کہ آیا جارجیا اور یوکرائین کو اس دفاعی اتحاد کی رکنیت دے دی جائے۔ قفقاذ کی جنگ کی وجہ سے جرمنی اور کئی دوسرے ملکوں کے یہ خدشات بھی درست ثابت ہوئے کہ اگر جارجیا اور یوکرائین کو ابھی سے نیٹو میں شامل کرلیا جاتا ہے تو ان ملکوں اور یورپی یونین کے روس کے ساتھ وہ تنازعےبھی لازمی طور پر پیش منظر میں آ جائیں گے، جنہیں حقیقت پسندانہ بنیادوں پر کوئی بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اس حوالے سے نیٹو میں شامل کئی دیگر ملکوں، خاص کر امریکہ کی سوچ یہ تھی کہ اگر جارجیا اور یوکرائین اس اتحاد میں شامل ہو چکے ہوتے تو اگست میں جارجیا اور روس کے مابین جنگ شروع ہی نہ ہوتی۔ لیکن یہ ایک ایسا موٴقف تھا، جسے امریکہ نیٹو میں اپنے اتحادیوں کی اکثریت سے تسلیم نہ کرا سکا۔

یورپ ابھی جارجیا اور روس کی جنگ کے اثرات کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرہی رہا تھا کہ امریکہ میں ہاؤسنگ کی صنعت سے شروع ہونے والے مالیاتی بحران نہ صرف بڑے بڑے بینکوں کے دیوالیہ ہو جانے کا سبب بننے لگا بلکہ اس وجہ سے بین الاقوامی مالیاتی منڈیاں بھی شدید خوف و ہراس کا شکار ہو گئیں۔

اس سے پہلے کہ اس مالیاتی بحران کے نقصانات کو محدود رکھنے کی کوشش کی جاتی، امریکی معیشت سے شروع ہونے والے بحران نے پوری عالمی معیشت کو متاثر کرنا شروع کردیا۔ اس بحران کے ہاتھوں عالمی معیشت کو کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا اور امریکہ کے علاوہ، کئی یورپی ملکوں کو انفرادی طور پر اربوں یورو کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ ان حالات میں اپنے اپنے مالیاتی اداروں کو بچانے کی کوشش کرتے ہوئے بہت سے یورپی ملکوں کی حکومتوں نے بیسیوں ارب یورو کے ہنگامی امدادی پروگرام منظور کئے اور اس سے پہلے کہ اسی بحران کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے یورپی یونین مشترکہ طور پر کوئی فیصلے کرتی، یونین کے مالیاتی امور کے نگران کمشنر یوآکِن آلمُونیا نے یونین سے فوری مشترکہ اقدامات کی اپیل کرتے ہوئے کہا: "ہمیں لازمی طور پر یکطرفہ مالیاتی اقدامات کے منفی اثرات سے بچنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ رکن ملکوں کی طرف سے انفرادی طور پر کئے گئے ایسے ہنگامی مالیاتی فیصلےپہلے ہی کئی رکن ریاستوں میں نئی مشکلات کی وجہ بن چکے ہیں۔ ہمیں ان منفی اثرات کو ہر حال میں روکنا ہوگا۔"

Autokrise USA Meltdown Auto Congress
امریکی موٹر ساز کمپنی جنرل موٹرس کو بھی زبردست مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑاتصویر: AP

یہ یورپی یونین کے مشترکہ طور پر کئے گئے ایسے ہنگامی مالیاتی اقدامات ہی کا نتیجہ تھا کہ یورپ میں کم ازکم بڑے بڑے مالیاتی اداروں کے دیوالیہ پن کی وہ لہر دیکھنے میں نہیں آئی جو کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے طور پر امریکی مالیاتی نظام کے لئے زیادہ سے زیادہ خطرناک ہوتی جارہی تھی۔

اس مالیاتی بحران کے نتیجے میں بینکوں کے ساتھ ساتھ جس ایک شعبے کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا، وہ کارسازی کی صنعت تھی جو کہ یورپی یونین کے رکن کئی ملکوں کی معیشت میں مرکزی اہمیت کی حامل ہے۔

اس حوالے سے یورپ میں نومبر کے مہینے میں ہونے والی کار انڈسڑی سے متعلق ایک سربراہی کانفرنس میں اس صنعت کی تشکیل نو کے لئے مالی امداد دینے کا فیصلہ تو کیا گیا مگر ساتھ ہی اس صنعت کو یہ واضح اشارہ بھی دیا گیا کہ وہ مستقبل میں زیادہ ماحول دوست موٹر گاڑیاں تیار کرنے پر توجہ دے۔

سال 2008 کے موسم خزاں میں برسلز میں یورپی یونین کے رکن ملکوں کے مابین کئی ہفتوں تک جاری رہنے والی مشاورت میں مالیاتی اور معیشی بحران ہی کو مرکزی اہمیت حاصل رہی۔ تب تک قرن افریقہ کے علاقے میں بحری قزاقوں کے بار بار کے حملوں کی وجہ سے یورپ اور عالمی برادری کے لئے ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو چکا تھا۔ اس سے قبل نیٹو نے افریقہ میں خلیج عدن کے سمندری علاقے میں ان حملوں کو روکنے کو کوشش تو کی مگر کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوسکے۔ لہٰذا نیٹو کے سیکریٹری جنرل یاپ دے ہوپ شیفر یورپی یونین کے خارجہ اور سلامتی سے متعلقہ امور کے نگران عہدیدار خاوئیر سولانا کے ساتھ مل کر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے: "بحری قزاقی کا یہ مسئلہ نہ صرف شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے بلکہ یہ جہاز رانی کی عالمی صنعت کے لئے ایسا درد سر بنتا جارہا ہے جو صرف خلیج عدن کے علاقے تک ہی محدود نہیں ہے۔ لیکن اگر صرف خلیج عدن کے علاقے میں پیش آنے والے واقعات ہی کو دیکھا جائے تووہاں سے ہر سال 20 ہزار بحری جہاز گذرتے ہیں اور اب تک وہاں قزاقوں کے حملوں میں تین گنا سے بھی زائد کا اضافہ ہو چکا ہے۔"

Bildgalerie Jahresrückblick 2008 November Somalia
خلیج عدن میں صومالی قزاقوں کی کارروائیوں نے دنیا کے بڑے ملکوں کو بھی پریشان کردیاتصویر: AP

اس پر یورپی یونین نے ان سمندری علاقوں کو محفوظ بنانے کا ذمہ نیٹو کی بجائے اپنے سر لینے کا فیصلہ کیا اور دسمبر میں یورپی یونین کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آٹالانٹا کے نام سے وہاں ایک باقاعدہ بحری مشن شروع کردیا گیا۔ اس مشن کے آغاز پر خاوئیر سولانا نے کہا: "یہ ایک بہت ٹھوس آپریشن ہوگا جس کا بنیادی کام قزاقوں کو اُن کے حملوں سے باز رکھنا ہوگا اور بحری راستوں کو محفوظ بنایا، خاص طور پر قرن افریقہ کے علاقے میں اقوام متحدہ کے امدادی منصوبوں کو تحفظ فراہم کرنا۔"

اسی دوران یورپی پارلیمان نے اپنی سیاسی غیر جانبداری کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے چینی حکومت کے آزادی رائے سے متعلقہ متنازعہ اقدامات پر سخت تنقید کی اور اکتوبر کے آخر میں فکری آزادی کا سخاروف انعام چین کے ایک سرکردہ سیاسی منحرف ہُو جیا کو دینے کا فیصلہ کیا۔ اس موقع پر یورپی پارلیمان کے سپیکر ہانس گیر‌ٹ پوئٹیرِنگ نے کہا: "ہُو جیا کو سخاروف انعام دیتے ہوئے یورپی پارلیمان کھل کر اور غیر مبہم انداز میں اُن تمام کارکنوں کی فکری آزادی کے لئے ہر روز کی جد وجہد کا اعتراف کرتی ہے جو وہ چین میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے جاری رکھے ہوئے ہیں۔"

اس پر چینی حکومت نے پہلے تو احتجاج کیا، لیکن بعد میں جب یورپی پارلیمان نے تبتی باشندوں کے روحانی پیشوا دلائی لاما کو بھی اپنے اراکین سے خطاب کی دعوت دے دی تو بیجنگ حکومت نے پہلے سے طے شدہ یورپی یونین اورچین کی وہ سربراہی کانفرنس منسوخ کردی جوفرانس میں ہونا تھی۔

Nicolas Sarkozy und Dalai Lama Treffen in Polen
پولینڈ میں فرانسیسی صدر نکولا سرکوزی نے بدھ رہنما دلائی لامہ کے ساتھ ملاقات کی اور یوں چین کو ناراض کردیاتصویر: AP

2008 کی آخری سہ ماہی میں روس اور یورپی یونین کے تعلقات میں اُس وقت دوبارہ بہتری دیکھنے میں آئی جب نومبر میں یورپی وزرائے خارجہ نے اکثریتی رائے یہ فیصلہ کیا کہ روس کے یورپی یونین کے ساتھ نئے شراکت داری معاہدے سے متعلق بات چیت بحال ہونا چاہیئے۔ تب جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے کہا تھا: "میں آپ کو اس اجلاس کے فیصلے سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ یورپی یونین کے روس کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے لئے کسی بھی طرح کی کوئی نئی شرائط نہیں رکھی گئی ہیں۔"

دسمبر میں یورپی یونین کی سربراہی کانفرنس میں تحفظ ماحول سے متعلق ایک ایسے جامع منصوبے کی منظوری دے دی گئی جس پر عمل درآمد سے یورپ عالمی ماحول کے تحفظ کے سلسلے میں دنیا بھر میں اپنے قائدانہ کردار کو اور بھی مستحکم بنا سکےگا۔ اس یورپی سربراہی کانفرنس کے نتائج پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا تھا: "ایک جرمن شہری کے طور پر مجھے اس بات کی خاص طور پر خوشی ہے کہ اس ماحولیاتی معاہدے کے بنیادی نِکات جرمنی کی طرف سے یورپی یونین کی صدارت کے عرصے میں طے کئے گئے تھے۔ اب انہی نِکات کو باقاعدہ ضوابط کی صورت میں حتمی شکل دی جائے گی۔ مجھے بڑی خوشی ہے کہ ہم یہ کامیابی حاصل کرسکے۔"

یورپی مالیاتی اتحاد کے سلسلے میں 2009 کے آغاز پر سب سے اہم پیش رفت سلوواکیہ میں یورپی مشترکہ کرنسی یورو کا اجراء ہے اور سلوواکیہ یورو زون میں شامل ہونے والا سولہواں ملک ہے۔ فرانس کے بعد نئے سال 2009 کی پہلی ششماہی میں یورپی یونین کی صدارت چیک جمہوریہ کے پاس رہے گی۔