1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سترہ تیونسی تارکینِ وطن بھی جرمنی بدر کر دیے گئے

صائمہ حیدر
5 اپریل 2017

جرمنی میں پناہ کے ناکام درخواست گزار تارکینِ وطن کی ملک بدری کے عمل میں تیزی لائی جا رہی ہے۔اس سلسلے میں آج بدھ کے روز تیونس سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کے ایک گروپ کو لائیپزگ شہر سے اُن کے آبائی وطن واپس بھیجا گیا۔

https://p.dw.com/p/2akrb
Deutschland Flüchtlinge kommen an der ZAA in Berlin an
آج تیونس سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کے ایک گروپ کو لائیپزگ شہر سے اُن کے آبائی وطن واپس بھیجا گیاتصویر: Getty Images/S. Gallup

طیارے پر سوار ہونے والے 17 تارکینِ وطن میں سے نو افراد مشرقی جرمنی کی ریاست سیکسنی میں رہائش پذیر تھے۔ سیکسنی کی وزارتِ داخلہ کے مطابق دیگر مہاجرین مغربی ریاستوں باڈن ورٹمبرگ اور نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے مختلف شہروں سے ملک بدر کیے گئے۔ سیکسنی میں امورِ داخلہ کے وزیر مارکوس اُل بگ نے ایک بیان میں کہا، ’’جس شخص کو بھی ملک چھوڑنے کو کہا جائے اسے لازمی ملک چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘ اُل بگ نے مزید کہا کہ ساتھ ہی ہمیں مہاجرین کے درمیان ممکنہ طور پر قانون شکنی کرنے والوں پر بھی کڑی نظر رکھنا ہو گی۔
 سیکسنی کی وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ آج صبح لائیپزگ سے تیونس واپس بھیجے جانے والے تارکینِ وطن میں تیرہ کو جرمنی میں مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے جیسے الزامات کا سامنا تھا اور اُنہیں حراستی مراکز سے چارٹرڈ طیارے تک براہ راست پنہچایا گیا۔ 
جرمنی پناہ کی مسترد شدہ کیسوں کے حامل مہاجرین کو ملک بدر کرنے میں سست رو رہا ہے۔ تاہم  جرمن حکومت نے سن 2015 میں دس لاکھ کے قریب مہاجرین کی ملک میں آمد کے بعد  اب ملک بدری کے حوالے سے قوانین کو سخت کیا ہے۔
دوسری جانب گزشتہ سال دسمبر سے لے کر اب تک جرمنی سے اب تک قریب 77  افغان تارکینِ وطن کو بھی واپس افغانستان بھیجا گیا ہے جن میں زیادہ تعداد نوجوان مردوں کی ہے۔
اس برس جرمنی سے قریب بارہ ہزار افغان مہاجرین کو ملک بدر کیا جانا ہے۔ تاہم افغان باشندوں کو واپس بھیجے جانے کے حوالے سے جرمنی میں کافی اختلاف بھی پایا جاتا ہے کیونکہ جنگ سے تباہ حال یہ ملک اب بھی طالبان سے بر سرِ پیکار ہے اور ملک بھر میں بم حملے آئے دن کا معمول ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں