1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سربیا میں مہاجرین کی بے چینی بڑھتی ہوئی

عاطف بلوچ10 جولائی 2016

سربیا اور ہنگری کی سرحد پر قائم عارضی پناہ گاہوں میں موجود نڈھال لیکن پُرامید مہاجرین سرحدی رکاوٹوں اور شدید گرمی کی پروا کیے بغیر پُرعزم ہیں کہ وہ یورپی یونین میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/1JMWn
Ungarn Flüchtlinge harren vor Transitzone aus
تصویر: DW/B. Bardi

یورپی یونین نے غیرقانونی مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کو روکنے کی خاطر سخت قوانین متعارف کرا دیے ہیں۔ تاہم سربیا میں موجود پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ وہ بہتر زندگی کی خاطر شروع کیے جانے والا سفر ترک نہیں کریں گے۔ انہیں اب بھی امید ہے کہ وہ ہنگری میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

مشرق وسطیٰ، ایشیا اور افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریبا چھ سو مہاجرین گزشتہ ماہ سے ہنگری کی سرحد سے کچھ میٹر دور ہی عارضی خیموں میں موجود ہیں۔ ہنگری نے اپنی سرحدی گزرگاہ پر خار دار تاریں نصب کر رکھی ہیں جب کہ سکیورٹی کا بھی سخت انتظام ہے۔ Horgos-Roszke نامی سرحدی گزر گاہ پر موجود یہ مہاجرین دراصل ہنگری میں پناہ کی درخواست جمع کرانے کے متمنی ہیں۔

شورش زدہ خطوں سے تعلق رکھنے والے یہ افراد اس بات سے بے نیاز ہیں کہ ہنگری کی حکومت نے نہ صرف سیاسی پناہ سے متعلق اپنے ملکی قوانین کو سخت بنا دیا ہے بلکہ یہ بھی باور کرا دیا ہے کہ غیرقانونی طور پر ملک میں داخل ہونے والے مہاجرین کو ملک سے نکال دیا جائے گا۔ پانچ جولائی سے ان نئے قوانین کو لاگو کیا جا چکا ہے۔

بوڈاپیسٹ میں حکومت کی طرف سے ان تازہ ترین اقدامات کی وجہ سے سربیا میں موجود پناہ گزینوں کی بے چینی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سربیا میں اقوام متحدہ کے ایک اہل کار کے مطابق مہاجرین اب بے قرار ہو چکے ہیں کیوں کہ انہیں اپنے خوابوں کے ٹوٹ جانے کا خدشہ ہے۔ اسی لیے ہنگری کی سرحد پر جمع ہونے والے ان مہاجرین کی تعداد میں گزشتہ چند روز میں دوگنا اضافہ ہو گیا ہے۔ اس وقت وہاں موجود تقریبا ساڑھے تیزرہ سو مہاجرین میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔

اسی طرح سربیا کے دیگر علاقوں میں بھی مہاجرین کا ہجوم دیکھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ گزشتہ کچھ ماہ سے سربیا پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں کمی ہوئی ہے لیکن پھر بھی رواں برس کے دوران سربیا آنے والے مہاجرین کی یومیہ اوسط تعداد پانچ سو بنتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سن دو ہزار سولہ میں تقریبا ایک لاکھ دو ہزار مہاجرین اور تارکین وطن سربیا میں رجسٹرڈ کیے جا چکے ہیں۔

Ungarn Flüchtlinge harren vor Transitzone aus
مشرق وسطیٰ، ایشیا اور افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے سینکروں ہنگری کی سرحد سے کچھ میٹر دور ہی عارضی خیموں میں موجود ہیںتصویر: DW/B. Bardi
Ungarn Flüchtlinge an der Grenze zu Serbien
سربیا میں موجود پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ وہ بہتر زندگی کی خاطر شروع کیے جانے والا سفر ترک نہیں کریں گےتصویر: picture alliance/dpa/S. Ujvari
Ungarn Flüchtlinge in Kiskunhalas
سربیا کے دیگر علاقوں میں بھی مہاجرین کا ہجوم دیکھا جا سکتا ہےتصویر: picture alliance/dpa/S. Ujvari
Karte Ungarn Grenzstädte Kroatien Serbien Englisch
سربیا سے ہنگری داخل ہونے والے مہاجرین آگے جرمنی اور دیگر ممالک جانا چاہتے ہیں
Deutschland ungarische Soldaten schließen den Grenzzaun zu Serbien bei Roszke
ہنگری نے اپنی سرحدی گزرگاہ پر خار دار تاریں اور رکاوٹیں نصب کر رکھی ہیںتصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai

ادھر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین ’یو این ایچ سی آر‘ نے بتایا ہے کہ سربیا میں مہاجر کیمپوں کی صورت حال انتہائی ابتر ہے اور بالخصوص ہروگوس کے مقام پر عارضی شیلٹر ہاؤس میں نکاسی آب کے مسائل کے علاوہ بنیادی امدادی اشیاء کا شدید فقدان ہو چکا ہے۔

اس صورت حال میں کئی مہاجرین انسانی اسمگلروں کی مدد سے سربیا سے ہنگری داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن سکیورٹی اہل کار انہیں پکڑ کر واپس سربیا روانہ کر رہے ہیں۔ ہنگری میں حکام نے بتایا ہے کہ رواں برس تقریبا سترہ ہزار مہاجرین ملک میں داخل ہونے کی کوشش کر چکے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں