1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سرحديں بند کرنے کا سوال ہی پيدا نہيں ہوتا، آسٹرين چانسلر

عاصم سليم19 نومبر 2015

جرمن چانسلر انگيلا ميرکل اور ان کے آسٹرين ہم منصب ویرنر فےمان نے پناہ گزينوں کے بحران کے حل کے ليے يکساں موقف اختيار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مسئلے کا حل يورپی يونين کی سرحدوں کے باہر ہی ممکن ہے۔

https://p.dw.com/p/1H8zK
تصویر: Reuters/H. Hanschke

جرمن دارالحکومت برلن ميں ایک ملاقات کے بعد انگيلا ميرکل اور ویرنر فےمان نے ايک مشترکہ پريس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ يونان ميں ’ہاٹ اسپاٹس‘ يا مہاجرين کے اندراج کے مراکز کے قيام کے معاملے ميں يورپی حکام کو تيزی سے کام لينا چاہيے تاکہ پھر تارکين وطن کی يا تو ملک بدری يا پھر ديگر يورپی ممالک منتقلی جلذ از جلد ہو سکے۔

جرمنی ميں سال رواں کے دوران اکتوبر تک سياسی پناہ کے ليے 758,000 مہاجرين کا اندارج ہو چکا ہے۔ برلن حکام کو اتنی بڑی تعداد ميں پناہ گزينوں کی مسلسل آمد کے سبب شديد مشکلات کا سامنا ہے۔ جرمنی پہنچنے والے تقريباً تمام تارکين وطن سب سے پہلے يونان اور پھر بلقان ممالک پہنچے تھے جس کے بعد وہ آسٹريا کے رستے جرمنی پہنچے ہيں۔

مہاجرين کے موضوع پر بات کرتے ہوئے چانسلر ميرکل نے کہا کہ ان کی تعداد ميں کمی، انتظامی امور ميں بہتری، کنٹرول کے قيام اور ديگر معاملات ميں بہتری يورپی يونين کی بيرونی سرحدوں پر ہی ممکن ہے۔

يہ امر اہم ہے کہ جرمنی ميں سياسی پناہ کے نظام کو بہتر بنانے کے ليے نئے قوانين متعارف کرائے جا چکے ہيں۔ ان قوانين کے تحت پناہ کے حصول کے معاملے ميں شامی پناہ گزينوں کے امکانات کافی بہتر ہيں جبکہ معاشی مقاصد کے ليے يورپ کا رخ کرنے والوں کو بلقان ممالک سے ہی واپس بھيج ديا جائے گا۔

جرمنی پہنچنے والے تقريباً تمام تارکين وطن سب سے پہلے يونان اور پھر بلقان ممالک پہنچے تھے جس کے بعد وہ آسٹريا کے رستے جرمنی پہنچے ہيں
جرمنی پہنچنے والے تقريباً تمام تارکين وطن سب سے پہلے يونان اور پھر بلقان ممالک پہنچے تھے جس کے بعد وہ آسٹريا کے رستے جرمنی پہنچے ہيںتصویر: Getty Images/S. Gallup

بعد ازاں جرمن چانسلر سے ملاقات کے بعد ویرنر فےمان نے جرمن ٹيلی وژن چینل ARD پر بات چيت کرتے ہوئے کہا کہ پيرس ميں گزشتہ ہفتے ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے تناظر ميں يورپ آنے والے تارکين وطن کی بہتر انداز ميں تحقيقات لازمی ہيں تاہم سرحديں بند کرنا کوئی حل نہيں۔ انہوں نے کہا، ’’سرحديں بند کرنا شينگن زون اور تيس يورپی ملکوں ميں بغير ويزے کے سفر کی يورپی سہولت کے خاتمہ کے مساوی ہو گا۔‘‘

آسٹريا کے چانسلر نے مزيد کہا کہ اولين ترجيحات شام ميں تشدد کا خاتمہ اور ترکی ميں پہلے سے موجود پناہ گزينوں کے حالات ميں بہتری ہونی چاہييں۔ انہوں نے کہا، ’’ہم آسٹريا يا جرمنی کی سرحدوں کے اندر اس مسئلے کا حل تلاش نہيں کر سکتے۔‘‘