1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سرحديں کھول دو‘ : مشتعل مہاجرين نے باڑ توڑ ڈالی

عاصم سليم1 مارچ 2016

سينکڑوں برہم پناہ گزينوں نے پير کے روز سرحد پر لگی باڑ توڑ کر يونان سے مقدونيہ ميں داخل ہونے کی کوشش کی۔ بلقان ممالک کی جانب سے حاليہ بارڈر کنٹرولز کے نفاذ کے نتيجے ميں تقريباً سات ہزار مہاجرين اس مقام پر پھنسے ہوئے ہيں۔

https://p.dw.com/p/1I4l2
تصویر: DW/D. Tosidis

تقريباً تين سو تارکين وطن نے باڑ پھلانگ کر يونان اور مقدونيہ کے درميان واقع ريلوے ٹريک کی جانب بھاگنے کی کوشش کی۔ يہ تارکين وطن ’سرحديں کھول دو‘ کے نعرے لگا رہے تھے اور انہوں نے باڑ کا ايک حصہ کاٹ ديا تھا۔ نتيجتاً مقدونيہ کی پوليس نے ان پر آنسو گيس کے شيل برسائے تاکہ وہ سرحد پار نہ کر سکيں۔ اس واقعے ميں متعدد مہاجرين کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہيں اور تقريباً تيس لوگوں کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرنا پڑی، جن ميں زيادہ تر بچے تھے۔ بتايا گيا ہے کہ مقدونيہ کا ايک پوليس اہلکار بھی زخمی ہوا اور اسے ہسپتال منتقل کر ديا گيا۔

يہ واقعہ مقدونيہ کی جانب سے تين سو کے لگ بھگ صرف شامی اور عراقی پناہ گزينوں کو گزرنے دينے کے کچھ دير بعد پير کے روز پيش آيا۔ يہ امر اہم ہے کہ آسٹريا اور پھر چند بلقان رياستوں کی جانب سے مہاجرين کی حد مقرر کر دينے کے بعد سے يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر پناہ گزينوں کا ايک ہجوم جمع ہو رہا ہے اور ايتھنز حکام نے خبردار کيا ہے کہ مارچ ميں اس مقام پر پھنس جانے والے افراد کی تعداد ستر ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔

دوسری جانب مقدونيہ کے صدر گےاورگ آئيوانوو نے جرمن نيوز ويب سائٹ اشپيگل آن لائن کو بتايا کہ جب آسٹريا کی ساڑھے سينتيس ہزار مہاجرين کی حد تک پہنچا جائے گا، تو اس کے بعد بلقان ممالک والے روٹ کو بھی بند کرنا ہو گا۔

ايتھنز حکام نے خبردار کيا ہے کہ مارچ ميں اس مقام پر پھنس جانے والے افراد کی تعداد ستر ہزار تک پہنچ سکتی ہے
ايتھنز حکام نے خبردار کيا ہے کہ مارچ ميں اس مقام پر پھنس جانے والے افراد کی تعداد ستر ہزار تک پہنچ سکتی ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Grdanoski

حاليہ پيش رفت پر عالمی رد عمل

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق محکمے کے سربراہ زيد رعد الحسين ’مہاجرين کے خلاف بڑھتے ہوئے خوف‘ کی سخت الفاظ ميں مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ان لوگوں کی حالت زار کے باوجود انہيں روکنے کے ليے اونچی ديواريں کھڑی کرنا ظالمانہ عمل ہے۔‘‘

انسانی حقوق کے ليے سرگرم ادارے ايمنسٹی انٹرنيشنل نے بھی اڈومينی کی صورتحال پر تنقيد کرتے ہوئے اسے امتيازی سلوک پر محيط شرمناک کارروائی قرار ديا ہے۔ اسی دوران جرمن چانسلر انيگلا ميرکل نے بھی بارڈر کنٹرول کے نفاذ کو تنقيد کا نشانہ بناتے ہوئے آسٹريا کی طرف اشارہ کيا، جس کی جانب سے انيس فروری کو اٹھائے جانے والے اقدامات کی وجہ سے ہی بلقان رياستوں نے بھی بارڈر کنٹرول نافذ کيے۔ ميرکل نے کہا، ’’يونان کو بحرانی صورتحال ميں نہيں ڈالنا چاہيے۔‘‘

ادھر امريکی وزير خارجہ جان کيری نے اپنے جرمن ہم منصب فرانک والٹر اشٹائن مائر کے ساتھ پير کے روز واشنگٹن ميں گفتگو کے بعد کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے پناہ گزينوں کا بحران ايک عالمی مسئلہ ہے۔