1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سرد جنگ کا تاريخی مقام مہاجرين کے ليے قربان

عاصم سليم24 جنوری 2016

برلن ميں تاريخی اہميت کے حامل سابقہ ٹيمپل ہوف ہوائی اڈے اور موجودہ پارک کو ملکی سطح پر سب سے بڑے مہاجر کيمپ ميں تبديل کيا جا رہا ہے۔ برلن کے شہری اور اپوزيشن سياستدان اِس پيش رفت سے کچھ زيادہ خوش دکھائی نہيں ديتے۔

https://p.dw.com/p/1Hj4K
تصویر: DW/H. Groumas

دوسری عالمی جنگ کے بعد چوبيس جون سن 1948 سے بارہ مئی سن 1949 کے دوران سابقہ سويت يونين کی طرف سے برلن کے مغربی اتحاديوں کے زير کنٹرول سيکٹروں ميں ريلوے، روڈ اور کنال رابطے بند کر ديے گئے تھے۔ يہ پيش رفت سرد جنگ کے دوران پہلے بڑے بين الاقوامی بحران کے طور پر سامنے آئی تھی، جسے ’برلن بلاکيڈ‘ يعنی برلن کی بندش کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اُس وقت برلن کے مکينوں کے ليے ٹيمپل ہوف ايئر پورٹ اميد کا پيغام ثابت ہوا۔ مغربی اتحادی اِسی ہوائی اڈے کے ذريعے مقامی آبادی کو بنيادی اشياء فراہم کرتے رہے۔ يہی وجہ ہے کہ مقامی لوگوں کے ليے تاريخی اہميت کے حامل اِس مقام کو پناہ گزينوں کی عارضی رہائش گاہ بنانے کے حکومتی ارادے پر شہری اور سياستدان ناخوش ہيں۔

برلن حکومت سابقہ ٹيمپل ہوف ہوائی اڈے کی زمين پر تقريباً سات ہزار پناہ گزينوں کی رہائش کے ليے ملک کا سب سے بڑا مہاجر کيمپ تعمير کرنا چاہتی ہے۔ پرانے ايئر پورٹ کے جہاز کھڑے کرنے والے ’ہينگرز‘ يا بڑے بڑے ہالوں اور مرکزی عمارت کے قريب کنٹينرز تعمير کر کے اُن ميں تارکين وطن کو رکھا جائے گا۔ حکام کی جانب سے اِس بارے ميں اعلان اِس ہفتے کے دوران جمعرات کے روز منعقدہ ايک پبلک ميٹنگ ميں کيا گيا اور اِس تقریب ميں حکومتی نمائندگان نے شہريوں کو منصوبے کے بارے ميں آگاہ کيا۔

يہ امر اہم ہے کہ اِس منصوبے کو پايہ تکميل تک پہنچانے کے ليے برلن حکومت کو 2014ء کے ايک قانون ميں ترميم کرنا ہو گی، جس کے تحت سابقہ ہوائی اڈے اور موجود پارک پر تعميرات ناجائز ہيں۔

ان دنوں تقريباً ڈھائی ہزار پناہ گزين ٹيمپل ہوف کی مرکزی عمارت ميں رہائش پذير ہيں
ان دنوں تقريباً ڈھائی ہزار پناہ گزين ٹيمپل ہوف کی مرکزی عمارت ميں رہائش پذير ہيںتصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer

’Tempelhofer Feld 100%‘ نامی ايک گروپ نے سرکاری منصوبے کی مخالفت ميں ايک پريس ريليز جاری کی، جس ميں کہا گيا ہے کہ قانون ميں تبديلی برلن کے قريب سات لاکھ مکينوں کی خواہشات کے خلاف ہو گی۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس شام، عراق، پاکستان، افغانستان اور چند شمالی افريقی ممالک سے تقريباً 1.1 ملين تارکين وطن پناہ کی غرض سے جرمنی پہنچے اور يہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اِسی عرصے ميں برلن ميں بھی 80,000 کے لگ بھگ پناہ گزين پہنچے۔ حکام کو اتنی بڑی تعداد ميں مہاجرين کی آمد کے سبب ان گنت انتظامی مسائل کا سامنا ہے۔ اس بارے ميں بات چيت کرتے ہوئے برلن کے اسٹيٹ سيکرٹری ڈيرک گيرسٹلے نے کہا، ’’دسمبر سے ہم مہاجرين کی آمد کے حساب سے رہائش کا انتظام نہيں کر پا رہے۔‘‘

دريں اثناء تقريباً ڈھائی ہزار پناہ گزين ٹيمپل ہوف کی مرکزی عمارت ميں رہائش پذير ہيں۔ اگرچہ رہائش کے ليے حالات قابل ذکر نہيں تاہم ہر پناہ گزين کے ليے مختص دو اسکوئر ميٹر کی جگہ پر حکومت کو ماہانہ گيارہ سو يورو کی لاگت آتی ہے۔ ٹيمپل ہوف کے آس پاس کے کروئٹزبرگ اور شونن برگ جيسے علاقوں کا شمار شہر کے امير ترين علاقوں ميں ہوتا ہے۔ اس بارے ميں بات کرتے ہوئے رياستی سيکرٹری برائے مہاجرين ڈيٹر گليٹش نے کہا، ’’ہم يہ جانتے ہيں کہ يہ وہ مقام نہيں جہاں يہ پناہ گزين کئی ماہ تک قيام کر سکيں۔‘‘ اُنہوں نے مزيد بتايا کہ منصوبہ يہی ہے کہ وہاں اندراج کے بعد پناہ گزينوں کو ديگر مقامات پر منتقل کر ديا جائے گا۔