1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سریبرینیتسا ميں قتل عام کی جزوی ذمہ داری رياست پر

عاصم سلیم
27 جون 2017

ہالينڈ ميں مقدمات کے فيصلوں پر دائر کردہ اپيلوں پر کارروائی کرنے والی ايک عدالت کے مطابق 1995ء ميں 350 مسلمانوں کے قتل عام کی جزوی ذمہ داری رياست پر عائد ہوتی ہے۔ عدالت نے حکومت کو زر تلافی ادا کرنے کا بھی کہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2fT7k
Zeremonie zum 20. Jahrestag des Massakers von Srebrenica in Potocari
تصویر: Picture-Alliance/AP Photo/Marko Drobnjakovic

دی ہيگ ميں عدالت کا فيصلہ سناتے وقت جج گيپکے ڈوليک نے کہا، ’’عدالت اس نتيجے پر پہنچی ہے کہ رياست نے غير قانونی انداز ميں کام کيا۔‘‘ منگل کے روز اس فيصلے ميں بنيادی طور پر سن 2014 کے فيصلے کی ہی توثيق کی گئی، جسے ايک زيريں عدالت نے سنايا تھا اور جس کے خلاف اپيل دائر کی گئی تھی۔ جج نے فيصلہ سناتے وقت مزيد کہا، ’’بوسنيا کے سربوں کی جانب سے مسلمان لڑکوں و مردوں کو عليحدہ کيے جاتے وقت اس بات کا خطرہ موجود تھا کہ انہيں غير انسانی سلوک يا ہلاک کر ديے جانے کا سامنا ہے اور ڈچ امن مشن کے ارکان اس سے واقف تھے۔‘‘ جج کے مطابق پناہ گزينوں کی قطاروں سے مسلمان لڑکوں اور مردوں کو عليحدہ کرنے کے عمل ميں ڈچ فوجيوں نے مدد بھی فراہم کی تھی۔ منگل کو سامنے آنے والے فيصلے کے مطابق اس سلسلے ميں زر تلافی کے کسی بھی سمجھوتے کا تيس فيصد ہالينڈ کی حکومت ادا کرے گی۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد يورپ کے سن 1995  کے بد ترين مسلح تنازعات ميں  کے دوران آٹھ ہزار مسلمان مردوں کا قتل عام کيا گيا تھا۔ يہ مخصوص واقعہ اس سال تيرہ جولائی کا ہے جب بوسنيا سے تعلق رکھنے والی سرب افواج کافی محدود اسلحے سے ليس اور ہزاروں پناہ گزينوں کے ايک اقوام متحدہ کے کيمپ کی حفاظت پر مامور ہالينڈ کے امن دستوں کو روندتے ہوئے آگے بڑھ گئی تھيں۔ تقريباً ساڑھے تين سو مسلمانوں کو ديگر پناہ گزينوں کے ساتھ لے جا کر ہلاک کر ديا گيا تھا۔ ہالينڈ کی حکومت اور متاثرين کے لواحقين، دونوں ہی کی جانب سے سن 2014 کے اس فيصلے کے خلاف اپيل دائر کی گئی تھی، جس کے مطابق رياست ان اموات کی ذمہ دار تھی۔

سریبرینیتسا ميں مسلمانوں کے قتل عام کو اقوام متحدہ کی دی ہيگ ميں قائم عدالت ’نسل کشی‘ قرار دے چکی ہے۔ ہالينڈ ميں آج بھی يہ ايک متنازعہ موضوع ہے۔ گزشتہ برس ڈچ وزير دفاع نے اپنے ايک بيان ميں کہا تھا کہ ڈچ فوجيوں کے ليے يہ ’نا ممکن صورت حال ميں انتہائی نا ممکن مشن‘ تھا۔ بعد ازاں 1995ء ميں پناہ گزينوں کے کيمپ کی حفاظت پر مامور دو سو سے زائد فوجيوں کے ليے مقدمہ لڑنے والے وکيل نے پير کے روز کہا تھا کہ وہ سریبرینیتسا کے دفاع کے ليے ڈچ فوجيوں کو بھيجنے کے ليے حکومت کے خلاف ايک اور مقدمہ دائر کريں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید