1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری لنکا اور آزادی صحافت

کشور مصطفٰی4 فروری 2009

پچیس سال سے جاری خانہ جنگی کے بعد سری لنکا کی حکومت نے تامل باغیوں کی علیحدگی پسند تنظیم کے خلاف فتح حاصل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/GnFt
ایک سری لنکن صحافی آزادی صحافت کے حوالے سے احتجاج کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/ dpa

چار فروری کو سری لنکا کے 61 ویں یوم آزادی کے موقع پرکولمبو میں ملٹری پریڈ کے بعد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سری لنکا کے صدر Mahinda Rajapakse نے کہا کہ ان کا ملک دنیا کی سب سے طاقتوردہشت گرد تنظیم LTTE کا شکارہوچکا ہے۔ تاہم سری لنکا کی فوج کے تامل ٹائیگرز کے خلاف آپریشن کے بارے میں میڈیا رپوٹنگ کی راہ میں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ صحافی اس جنگ اوراس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانی بحران کے بارے میں آزادی کے ساتھ رپورٹنگ نہیں کرسکتے۔ تنقیدی صحافت پرنہ صرف پابندی عائد ہے بلکہ صحافیوں کو فوجی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

سری لنکا کی رائے عامہ تک، علیحدگی پسند تامل باغیوں کے خلاف فوجی آپریشن کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں اورزخمیوں کی صورت حال کے بارے میں کوئی خبر نہیں پہنچتی۔ یہ یقیناٍ ایک ایسی جنگ ہے جس میں کسی قسم کی اطلاعات یا تلخ حقائق نہ توپہلے سامنے آئے نہ اب آ رہے ہیں۔ یہ الفاظ ہیں سری لنکا میں قائم فریڈریش ایبرٹ فاؤنڈیشن کے سربراہ یوخن شلوؤٹر کے۔

یہ ادارہ سری لنکا کے صحافت کے شعبے میں بھی سرگرم ہے۔ کولمبوحکومت نہ تو صحافیوں کو جنگ زدہ علاقے، نہ پناہ گزینوں کے کیمپوں اورنہ ہی نام نہاد سیکیورٹی زون کے بارے میں رپوٹنگ کی اجازت دیتی ہے۔

دوسری جانب حکومت اپنی کامیابی کی خبرکو بھرپور طریقے سے کوریج دے رہی ہے۔ تامل باغی اپنے بیانات کورائے عامہ تک پہنچانے کے لئے انٹرنٹ سروس تامل نٹ کا سہارا لے رہے ہیں۔

Lal Wickrematunge ایک سنڈے نیوز پیپرکے ناشرہیں۔ ان کے بھائی اس اخبار کے مدیراعلی لسانتھا کو گزشتہ ماہ یعنی جنوری میں قتل کردیا گیا تھا۔ قاتل کون تھا یہ اب تک پتہ نہیں چل سکا۔ تاہم مقتول کے بھائی Lal Wickrematunge کہتے ہیں’’1994 میں اخبارسنڈے لیڈرکا اجراء ہوا تھا۔ اس کے بعد سے میرے بھائی کو مختلف نوعیت کی دھمکیاں دی جاتی رہیں۔ ان کا قصوریہ تھا کہ انہوں نے حکومت کو بدعنوانی کے سبب تنقید کا نشانہ بنایا اورفوج کے بہیمانہ سلوک کے خلاف قلم اٹھایا۔‘‘

Lal Wickrematunge کے مطابق سن 2006 میں سری لنکا میں صدر Rajapakse کے برسراقتدار آنے کے بعد سے اب تک 15 صحافیوں کا قتل ہو چکا ہے جبکہ درجنوں کواذیت رسانی اور پرتشدد حملوں کا شکاربنایا گیا۔ آئے دن انہیں دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔ متعدد صحافی ان حالات کے پیش نظرملک چھوڑنے پرمجبور ہوگئے ہیں۔ کولمبو میں متعین اقوام متحدہ کے ایک ترجمان گورڈن وائس کے مطابق ’’جنگ کی صورتحال سے دوچار ملک، جہاں عوامی جذبات بُری طرح مجروح ہوئے ہیں وہاں حکومت پرتنقید نارمل بات ہے۔ تاہم سری لنکا میں صحافی برادری نہایت محتاط ہو گئی ہے۔ صحافی خود ساختہ سنسرشپ پر مجبور ہوگئے ہیں اور یہ بولتے اورلکھتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔‘‘

عالمی برادری کی جانب سے سری لنکا میں آزادی صحافت کی صورتحال کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔