1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سزائے موت کے خلاف جنیوا میں عالمی کانگريس

24 فروری 2010

سزائے موت کے خلاف چوتھی عالمی کانگريس آج بدھ سے جنیواميں شروع ہو گئی ہے۔ اس چار روزہ کانفرنس ميں اقوام متحدہ کے 192 رکن ملکوں ميں سے 100 ریاستوں کے حقوق انسانی کے ہزاروں کارکن شرکت کر رہے ہيں۔

https://p.dw.com/p/MA9J
اکیاون ملکوں اور پانچ غير رياستی علاقوں ميں اب بھی سزائے موت دی جاتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

سزائے موت کے خاتمے کے سلسلے ميں اٹلی پچھلے دو سو سالوں سے دنيا بھر ميں سب سے آگے ہے۔ اقوام متحدہ ميں اطالوی سفير لاؤرا ميراچیان نے سزائے موت کے خلاف جنیوا ميں شروع ہونے والی چوتھی عالمی کانگریس کے بارے میں کہا:" اٹلی ميں سزائے موت کی مخالفت کی ايک طويل روايت ہے۔ يہ روايت 18 ويں صدی تک جاتی ہے۔ ٹسکنی نے پہلی رياست کے بطور سن 1786 ميں موت کی سزا ختم کر دی تھی۔"

جديد اطالوی رياست نے سزائے موت کے خاتمے کا قدم سن 1948 ميں اٹھايا تھا۔ اسی سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کے عمومی منشور ميں سزائے موت کے خلاف جنگ ميں عالمی سطح پر پہلی قانونی بنياد مہيا کی۔ اگرچہ انسانی حقوق کے منشور ميں اس کا واضح طور پر ذکر نہيں، تاہم منشور کی دفعہ نمبر تين ميں زندہ رہنے کے حق کی ضمانت دی گئی ہے، اور کہا گيا ہے کہ کسی کو بھی غير انسانی يا ذلت آميز سزا نہيں دی جانا چاہئے۔ اس منشور کی منظوری کے پہلے 20 برسوں کے دوران، دوسری عالمی جنگ کے بعد صرف سن 1949 ميں نئی قائم ہونے والی وفاقی جرمن ریاست ہی نے سزائے موت سے گريز کيا۔

Todesstrafe für Kinder im Iran Protest von Amnesty International
انسانی حقوق کی تنظیمیں سزائے موت کو انسانی وقار کے منافی قرار دیتی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

سن 1966 ميں اس منشور کی بنياد پر اقوام متحدہ نے رکن ممالک سے واضح طور پر مطالبہ کيا کہ وہ سزائے موت ختم کر ديں يا اسے کم ازکم صرف انتہائی سنگين جرائم کے لئے ہی باقی رکھيں۔ يہ ايک اہم قدم تھا کيونکہ اس سے پہلے تک کی عالمی تاريخ ميں سزائے موت کا عام رواج تھا، اور اس بارے ميں کسی قسم کے اعتراضات سننے ميں نہيں آتے تھے۔

اس کے باوجود سن 1970 کے عشرے تک صرف 23 ممالک نے ہی اپنے ہاں موت کی سزا ختم کی تھی۔

تاہم سن 1980 سے سزائے موت کے خلاف بہت واضح رجحان نظر آتا ہے۔ ايک اطالوی مذہبی برادری کے ترجمان موراسيتی نے کہا:" پچھلے تيس برسوں ميں ايک ڈرامائی تبديلی آئی ہے۔ دنيا کے پہلے براعظم کے طور پر يورپ میں سزائے موت ختم کردی گئی۔"

يورپی ممالک دنيا بھر ميں سزائے موت پر پابندی کے نفاذ کی کوششیں کر رہے ہيں۔ تاہم امريکہ، چين اور افريقہ اور ايشيا ميں يورپ کی سابقہ نوآباديوں کی طرف سے اس کی مخالفت کی گئی ہے۔ اب تک 141 ممالک ميں سزائے موت ختم کی جا چکی ہے۔ 51 ملکوں اور پانچ غير رياستی علاقوں ميں اب بھی سزائے موت دی جاتی ہے۔ پچھلے سال سزائے موت دئے جانے کے سب سے زيادہ واقعات چين، ايران، سعودی عرب اور امريکہ ميں پيش آئے۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: مقبول ملک