1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی ایمبیسی پر حملہ: ایران نے 100 افراد کو گرفتار کر لیا

افسر اعوان24 جنوری 2016

ایران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ کرنے والے 100 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ بات ایرانی عدلیہ کے ایک ترجمان نے آج 24 جنوری کو بتائی ہے۔ اس حملے کے باعث سعودی عرب نے ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے۔

https://p.dw.com/p/1HjBk
تصویر: TASNA

ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی IRNA کے مطابق ملکی عدلیہ کے ترجمان غلام حسین محسنی کا کہنا تھا، ’’حملے کے بعد سے 100 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے چند ایک کو چھوڑ دیا گیا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ رواں ماہ کے آغاز میں سعودی سفارت خانے پر حملے کی ’’تمام حکام کی طرف سے مذمت کی گئی ہے اور ہم نے اس سلسلے میں فوری اور سنجیدہ ایکشن لیا ہے۔‘‘

غلام حسین محسنی کے مطابق ایک فرد کو ’بیرونِ ملک‘ سے بھی گرفتار کیا گیا اور اسے ایران کو لوٹایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس شخص نے دیگر لوگوں کو ایمبیسی میں گھُسنے کے احکامات دیے تھے۔ تاہم انہوں نے اس سلسلے میں مزید کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔

تہران میں قائم سعودی سفارت خانے کے علاوہ مشہد میں موجود سعودی قونصل خانے کو مشتعل مظاہرین نے دو جنوری کو نشانہ بنایا تھا اور انہیں آگ لگا دی تھی۔ یہ کارروائیاں ان احتجاجی مظاہروں کے دوران کی گئیں جو سعودی عرب میں ایک شیعہ عالم دین شیخ نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے خلاف منعقد کیے گئے تھے۔ شیخ نمر کو سزائے موت دیے جانے کے فیصلے پر ایرانی رہنماؤں کی طرف سے بھی تنقید کی گئی تھی۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی طرف سے بھی سعودی سفارت خانوں پر حملوں کی مذمت کی گئی تھی
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی طرف سے بھی سعودی سفارت خانوں پر حملوں کی مذمت کی گئی تھیتصویر: MEHR

ایران میں سعودی سفارت خانوں پر حملے کے بعد سعودی عرب اور اس کے بعض دیگر اتحادی ممالک نے تہران کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات ختم کر دیے تھے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی طرف سے بھی بدھ 20 جنوری کو سعودی سفارت خانوں پر حملوں کی مذمت کی گئی تھی جنہیں انہوں نے اسلامی تعلیمات کے خلاف قرار دیا۔

خامنہ ای کے کہنا تھا، ’’برطانوی سفارت خانے پر حملے کی طرح یہ حملہ بھی ملک (ایران) اور اسلام کے خلاف ہے۔ اور مجھے یہ اچھا نہیں لگا۔‘‘ ان کا اشارہ ایک ہجوم کی طرف سے 2011ء میں برطانوی ایمبیسی پر حملے کی جانب تھا۔

ایرانی صدر حسن روحانی بھی سعودی سفارت خانوں پر حملوں ’مکمل طور پر نا جائز‘ قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کر چکے ہیں اور انہوں نے عدلیہ پر زور دیا تھا کہ وہ ان لوگوں کو قانون کے کٹہرے میں لائیں جن پر ان حملوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔