1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی شاہی خاندان سے متعلق امریکی کیبلز میں انکشافات

11 مارچ 2011

امریکی خفیہ سفارتی دستاویزات میں سعودی شاہی خاندان، جانشینی کے ضوابط اور متوقع امیدواروں سے متعلق تفصیلی تبصرہ پیش کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/10XFe
شاہ عبد اللہتصویر: AP

یہ دستاویزات وکی لیکس نے اپنے ذرائع سے حاصل کی ہیں اور خبر رساں ادارے روئٹرز نے ان کا مختصر جائزہ پیش کیا ہے۔ موجودہ سعودی شاہ عبد اللہ کی عمر 87 برس ہے جبکہ ولی عہد شہزادہ نائف السعود کی عمر 76 برس ہے اور دونوں کو صحت سے متعلق مسائل لاحق ہیں۔ اس پس منظر میں امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ شہزادہ نائف بھی طویل عرصے تک تیل کی دولت سے مالا مال اس خلیجی ریاست کے بادشاہ نہیں رہ پائیں گے۔

2009ء کے ایک خفیہ امریکی سفارتی کیبل کے مطابق وزیر داخلہ شہزادہ نائف پھر بھی بادشاہت کے مضبوط ترین امیدوار ہیں۔ انہیں شاہ عبد اللہ کے مقابلے میں سماجی میل ملاپ، مذہب اور روایت پسندی کے حوالے سے زیادہ سرگرم خیال کیا جاتا ہے۔

Kampf gegen Rebellen im Jemen
سعودی نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلطانتصویر: AP

شاہ عبد اللہ نے 2005ء میں ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد سے ملک میں تعلیم و انصاف کے محکموں میں اصلاحات متعارف کروائی ہیں اور معاشرے پر مذہبی رہنماؤں کی گرفت کم کرکے سعودی عرب کو جدید ریاست بنانے کی کوششیں کی ہے۔ مارچ 2009ء کی ایک امریکی سفارتی کیبل میں شہزادہ نائف کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ عرب قوم پرست جذبات رکھتے ہیں اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

اسی کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سعودی وزارت داخلہ کے ساتھ امریکہ کے خاصے اچھے تعلقات قائم ہیں جو شہزادہ نائف کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ کیبل اس وقت کی ہے جب شہزادہ نائف کو نائب وزیر اعظم دوئم بنایا گیا تھا۔ انہیں یہ عہدہ ملنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ مستقبل کے سربراہ مملکت ہیں۔

واضح رہے کہ شہزادہ نائف سے متعلق مغربی طاقتوں کو اس وقت کچھ خدشات لاحق ہوگئے تھے، جب انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ امریکہ پر گیارہ ستمبر کے حملوں کے پیچھے یہودی کارفرماں ہیں۔ شہزادہ نائف نے مغربی سکیورٹی اداروں کے ساتھ تعاون کا سلسلہ بھی منقطع کردیا تھا۔ وہ سعودی عرب کی اس مذہبی پولیس کے بھی بڑے حمایتی ہیں جو غیر مرد و خواتین کے ملاپ کو روکنے اور نماز کے اوقات میں دکانوں کی بندش کو یقینی بناتی ہے۔

اس پس منظر میں ایک امریکی کیبل میں یہ نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ شہزادہ نائف کی دلچسپی اب محض سلامتی سے متعلق امور تک محدود نہیں بلکہ وہ معیشت اور خارجہ پالیسی پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔

Beerdigung von König Fadh
شہزادہ عبد العزیز اپنے والد شاہ فہد کی میت کو آخری آرام گاہ کی جانب لے جاتے ہوئے، فائل فوٹوتصویر: AP

مستقبل کے ولی عہد کے طور پر شہزادہ نائف کے علاہ ان کے بھائی شہزادہ سلمان کو بھی دیکھا جارہا ہے جودارالحکومت ریاض کے گورنر ہیں۔ ان کے علاوہ شاہی مشیر عبد اللہ، نائب وزیر داخلہ احمد اور نوجوان انٹیلی جنس چیف شہزادہ مقرن کے نام بھی لیے جارہے ہیں۔

امریکی سفارتی کیبلز کے مطابق سعودی شاہی خاندان کے اندرونی اختلافات ہی وہاں کے مقتدر حلقے کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھے اور رہیں گے۔ 1932ء میں جدید سعودی ریاست قائم کرنے والے شاہ عبد العزیز کے 30 بیٹے و نواسے ابھی حیات ہیں تاہم 2006ء میں اقتدار اعلیٰ کی منتقلی سے متعلق قوانین بدلے جاچکے ہیں۔ ماضی میں کسی شہزادے کو اس کی عمر کی مناسبت سے عہدہ دیا جاتا تھا لیکن اب اس معاملے میں ایک اعلیٰ کمیٹی کو بہت زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔ اس کمیٹی کے 33 مرد ارکان میں سے پندرہ شاہ عبد العزیز کے صاحبزادے ہیں جبکہ 16 ان کے نواسے ہیں۔

امریکی سفارتکاروں نے اپنے خفیہ سفارتی پیغامات میں اس کمیٹی کو خوش آئند قرار دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ سعودی عرب کے حکمران حلقوں میں نئی اور پرانی نسل کے درمیان خلیج کم ہوگی۔

رپورٹ : شادی خان سیف

ادارت : ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں