1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب میں خواتین گاڑی چلا سکیں گی

عاطف توقیر ایسوسی ایٹڈ پریس
27 ستمبر 2017

سعودی عرب میں اگلے برس موسم گرما سے خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دے دی جائے گی۔ سعودی عرب جیسے انتہائی قدامت پسند ملک کی جانب سے اس اعلان کو وہاں خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2kmPe
Saudi Arabien Frau in einem Auto in Road
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali

سعودی عرب میں قانونی طور پر خواتین کو اب تک یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ خود گاڑی چلا سکیں۔ دیگر مسلم ممالک میں خواتین پر اس قسم کی کوئی پابندی عائد نہیں ہے، تاہم سعودی عرب میں اس پابندی کی وجہ سے اس ملک کو عالمی اور عوامی سطح پر ایک طویل عرصے سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ نہ تو اسلامی قوانین اس طرح کی کوئی پابندی عائد کرتے ہیں اور نہ ہی سعودی ٹریفک قوانین، تاہم خواتین کو سعودی عرب میں کبھی ڈرائیور لائسنس جاری نہیں کیا گیا اور اگر کسی خاتون کو گاڑی چلاتے دیکھا گیا، تو اسے گرفتار کر لیا گیا۔

’خواتین کی ڈرائیونگ کی اجازت کا فیصلہ سعودی معاشرہ کرے گا‘

سعودی عرب: خواتین پہلی مرتبہ انتخابی مہم میں

سعودی عرب حکومت کی خواتین ڈرائیوروں کو دھمکی

سعودی فرماں روا کے بیٹے اور واشنگٹن میں سعودی سفیر شہزادہ خالد بن سلمان نے منگل کے روز کہا کہ ملک میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دینا ایک ’بڑی پیش رفت‘ ہے اور ’معاشرہ اس کے لیے تیار‘ ہے۔ صحافیوں سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا، ’’یہ اس درست کام کے لیے درست وقت ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اب اپنے کسی مرد رشتہ دار کی اجازت کے بغیر بھی خواتین ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر سکیں گی۔

یہ اعلان ایک شاہی حکم نامے کی صورت میں سامنے آیا ہے اور منگل کی رات اس بابت اطلاعات سعودی سرکاری ٹی وی اور خبر رساں اداروں پر بھی جاری کر دی گئی تھیں۔

سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی معروف کارکن اور شاہ سعود یونیورسٹی کی پروفیسر عزیزہ یوسف نے اس حوالے سے کہا، ’’مجھے انتہائی خوشی ہے۔ یہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک نہایت عمدہ قدم ہے۔‘‘

سعودی عرب: خواتین پہلی بار اسٹیڈیم میں

نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا، ’’یہ بات قابلِ  مسرت ہے، تاہم یہ تبدیلی خواتین کے حقوق کے حوالے سے بہت سے مطالبات میں سے فقط ایک کامیابی ہے۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ سعودی تاریخ میں خواتین کو صرف گاڑی چلانے پر متعدد مرتبہ شدید سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سن 1990ء میں پچاس خواتین کو گاڑی چلانے کے جرم میں حراست میں لے لیا گیا تھا اور ان سے ان کے پاسپورٹ واپس لے لیے گئے تھے۔ اس کے قریب 20 برس بعد ایک خاتون کو سن 2011ء میں گاڑی چلانے کے جرم میں دس کوڑے مارنے کی سزا سنائی گئی تھی، جس پر عمل درآمد اس وقت کے سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ نے رکوا دیا تھا۔

سن 2014ء میں دو سعودی خواتین کو گاڑی چلانے کے جرم میں دو ماہ تک حراست میں رکھا گیا تھا۔ ان میں سے ایک خاتون کے پاس متحدہ عرب امارات کا ڈرائیونگ لائسنس تھا، تاہم سعودی سرحد عبور کرنے کے بعد اسے قانون شکنی کے جرم میں حراست میں لے لیا گیا تھا۔