1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی نائب ولی عہد ٹرمپ سے ملاقات کے لیے امریکا روانہ

مقبول ملک
13 مارچ 2017

سعودی عرب کے بہت بااثر سمجھے جانے والے نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان صدر ٹرمپ سے ملاقات کے لیے امریکا روانہ ہو گئے ہیں۔ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے ان سے ملاقات کرنے والے اعلیٰ ترین سعودی رہنما ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/2Z5Xb
Saudi-Arabien stellt Reformplan Vision 2030 in Riad vor
سعودی عرب کے شاہ سلمان (درمیان میں) ولی عہد محمد بن نائف (بائیں) اور نائب ولی عہد محمد بن سلمان کے ہمراہتصویر: Reuters/Saudi Press Agency

سعودی دارالحکومت ریاض سے پیر تیرہ مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ملک میں اقتصادی اصلاحات کے ایک بڑے منصوبے کے تحت سعودی عرب میں زیادہ سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی کوششیں کر رہے ہیں اور وہ آج پیر کے روز امریکا روانہ تو ہو گئے ہیں تاہم ان کا یہ دورہ سرکاری طور پر جمعرات سولہ مارچ سے شروع ہو گا۔

USA Donald Trump vor dem US-Kongress in Washington
سعودی نائب ولی عہد امریکی صدر کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کرنے والے اعلیٰ ترین سعودی رہنما ہوں گےتصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Lo Scalzo

سعودی پریس ایجنسی ایس پی اے نے لکھا ہے کہ اس دورے کے دوران ملکی نائب ولی عہد کی کوشش ہو گی کہ امریکی رہنماؤں سے ان کی بات چیت کے دوران توجہ دوطرفہ روابط کو مزید بہتر بنانے اور علاقائی معاملات سے متعلق مشترکہ مفادات پر مرکوز رہے۔

شہزادہ محمد بن سلمان نائب ولی عہد ہونے کے علاوہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان کے بیٹے اور ملکی وزیر دفاع بھی ہیں تاہم سعودی عرب کی اس تیسری اہم ترین شخصیت کی توجہ زیادہ تر اقتصادی امور پر مرکوز رہتی ہے۔

اسی سعودی شہزادے نے گزشتہ برس ’وژن 2030ء‘ کے نام سے وسیع تر سماجی اور اقتصادی اصلاحات کے اس پروگرام کی ابتدا کی تھی، جس کے تحت اس خلیجی ریاست کی اب تک تیل کی برآمد پر انحصار کرنے والی معیشت میں تنوع پیدا کیا جانا ہے۔

Bildkombo Saudi-Arabien Mohammed bin Nayef / Mohammed bin Salman bin Abdulaziz
کئی ماہرین کے مطابق سعودی ولی عہد (بائیں) اور نائب ولی عہد کے مابین رقابت بھی پائی جاتی ہےتصویر: Imago/picture-alliance/AA

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ واشنگٹن اور ریاض کے باہمی تعلقات عشروں پرانے ہیں، جن کی بنیاد سعودی تیل کے بدلے اس ریاست کو مہیا کی جانے والی قومی سلامتی کی امریکی ضمانتوں پر ہے۔ تاہم ان روابط میں سابق امریکی صدر باراک اوباما کے آٹھ سالہ دور صدارت میں وہ گرمجوشی دیکھنے میں نہیں آئی تھی، جو اس سے پہلے تک پائی جاتی تھی۔

اس کا ایک اہم سبب سعودی حکمرانوں میں پایا جانے والا یہ احساس بھی تھا کہ باراک اوباما امریکا کے شام کی جنگ میں شامل ہونے سے ہچکچاتے رہے تھے اور ان کا جھکاؤ کسی حد تک سعودی عرب کے علاقائی حریف ملک ایران کی طرف تھا، جس کے ساتھ واشنگٹن نے اوباما کے دور صدارت میں تہران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام سے متعلق معاہدہ بھی کر لیا تھا۔

شاہ سلمان ایشیا کا ایک ماہ کا دورہ اتوار سے شروع کریں گے

فریضہ حج کے حوالے سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات

سعودی عرب: پیسے کمانے کے لیے اچھا وقت گزر چکا

ایران ہمیں ’تباہ کرنا‘ چاہتا ہے، سعودی وزیر خارجہ

اسی تناظر میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر اس امید کا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور ‌صدارت میں امریکا خلیج فارس کے علاقائی معاملات، خاص طور پر ایرانی اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے سلسلے میں اپنی زیادہ عملی شمولیت کا مظاہرہ کرے گا۔

China Xi Jinping in Saudi-Arabien
سعودی نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان چینی صدر شی جن پنگ کے ہمراہتصویر: Reuters/Saudi Press Agency

شہزادہ محمد بن سلمان دورہء امریکا پر ایک ایسے وقت پر روانہ ہوئے ہیں جب ان کے 81 سالہ والد شاہ سلمان تقریباﹰ ایک مہینے کے کئی ایشیائی ملکوں کے اس دورے پر ہیں، جس دوران مختلف ملکوں سے اقتصادی روابط بہتر بنانے پر زیادہ توجہ دی جائے گی۔

اسی دوران اے ایف پی نے یہ بھی لکھا ہے کہ سعودی عرب کے 56 سالہ ولی عہد اور ملکی وزیر داخلہ شہزادہ محمد بن نائف کے بجائے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کا امریکا کے دورے پر جانا کسی حد تک یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ سعودی تخت کے مستقبل کے ان دونوں وارثوں کے مابین رقابت بھی پائی جاتی ہے۔